لباس کی تراش خراش سے تو وہ ایک صاحبِ ثروت گھرانہ لگتا تھا کہ جن کی دولت اور خوش بختی ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو-اور ساتھ ہی ان کے مسائل بھی ایسے ہی تھے ۔ ان کا شاندار گھر اور پھولوں سے بھرا باغیچہ دیکھ کر تو کیلیفورنیا کے خوبصورت گھر اور طویل سرسبز برآمدے جن میں ناریل کے درختوں کی قطاریں ہوں وہ شرما جائیں۔
خاتونِ خانہ کو یہ شکایت تھی کہ ان کا شوہر بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرتا ہے ۔اور واقعی وہ لگاتار سگریٹ نوشی کا عادی تھا ۔ چاہے گھر ہو یا دفتر حتیٰ کہ اپنی ائر کنڈیشنڈ مرسیڈیذ گاڑی میں بھی تمام کھڑکیاں بند کرکے سگریٹ نوشی کرتا ۔
اس کی کپکپاتی انگلیوں کی رنگت بھی جسم میں تمباکو کی زیادتی کی وجہ سے پیلی پڑچکی تھیں ۔ اس کی آواز میں موجود خاص کرختگی کی وجہ سے کوئی بھی شخص باآسانی یہ جان سکتا تھا کہ وہ دلجمعی سے سگریٹ نوشی کرتاہے ۔
شوہر کو یہ شکایت تھی کہ اس کی بیوی کھاتی بہت زیادہ ہے ، باتونی ہے اور بہت زیادہ خریداری کی دلدادہ ہے اور واقعی خاتون خانہ ایسی ہی تھیں ۔جب کہ جسمانی ورزش کا روزمرہ کی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ نتیجتاً ان کا جسم انتہائی بےڈول ہوچکا تھا ۔اس کے کپڑے اتنی تیزی سے چھوٹے ہوجاتے تھے کہ اس کا درزی اب کپڑوں کے بجائے ان کے لیے دراصل گاؤن سیتا تھا ۔ جن میں سے خاتون خانہ کی شوخ و چنچل شخصیت جھلک رہی ہوتی تھی ۔ فضول گوئی پر تو وہ ایسی مہارت رکھتی تھی کہ پڑوسن کی ماسی کے پوپلے شوہر سے لے کر امریکا کی خاتون اوّل کے لباس پر گھنٹوں بات کرسکتی تھیں ۔ اور اپنی ہی باتوں پر بے تہاشہ ہنستیں، دوسری طرف سہیلیوں میں ہر طرف اس کے چرچے تھے ۔
ایک طرف تو میاں بیوی ایک دوسرے کی شکایت کرتے تو دوسری طرف دونوں کو یہ شکایت تھی کہ ان کا سترہ سالہ بیٹا بےتحاشہ شراب نوشی کا عادی ہو چکا ہے ۔
باپ خود تسلیم کر چکا ہے کہ وہ معتدل شراب نوشی کا عادی ہے ۔ میرے بیٹے نے پہلی مرتبہ اپنی تیرہویں سالگرہ پر شراب نوشی کی تھی ۔ میں اور میری بیوی اپنی ہر سالگرہ فرانسیسی شراب کے ساتھ مناتے تھے اور بیٹے کو اجازت تھی کہ وہ کم مقدار میں شراب پی سکتا ہے ۔ میں نے اسے کبھی دوستوں کے ساتھ ہفتہ وار دعوتوں میں ہلکی شراب نوشی سے روکا نہیں۔ اور بڑوں کی پارٹیوں میں بھی خود اس کا گلاس بھر دیتا تاکہ اس کی عادت کو کسی حدتک اختیار میں رکھ سکوں ۔ اتنی اجازت تو میں نے دی مگر مجھے لگتا ہے کہ اب اسے شراب نوشی بہت پسند ہے ۔ اب وہ ہر ہفتہ شراب نوشی کرتا ہے ، دیر تک جاگتا ہے اور اکثر اسکول کے لیے دیر کر دیتا ہے ۔ اس کی تعلیمی کاکردگی بھی متاثر ہوگئی ہے ۔
ان کی ایک عدد چودہ سالہ بیٹی بھی ہے جو کبھی کوئی شکایت نہیں کرتی ۔ اور نہ ہی والدین کو اس سے کوئی شکایت ہے ۔ مگر جب بھی وہ میرے کلینک آتی ہے تو ایک فلپائنی ملازمہ ساتھ ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ جناب! یہ لڑکی مسلسل کھانستی رہتی ہے ۔ کیوں کہ مالک بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں ۔ مجھے کچھ یقین بھی تھا کہ شاید وہ صحیح کہہ رہی ہو۔ مزید یہ کہ وہ بیچاری لڑکی بدہضمی کی وجہ سے نہ تو کچھ کھا سکتی تھی اور اکثر رات کو بستر بھی گیلا کر دیتی تھی ۔ وہ بنیادی طور پر تنہائی اور والدین کی طرف سے عدم توجہی کا شکار تھی ۔ جب کہ والدین اپنی اپنی زندگی میں مشغول تھے ۔ لڑکی کی ضروریات ملازمہ پورا کرتی تھی جوکہ اب دراصل اس کی متبادل ماں (Surrogate mother)تھی ۔
چوں کہ یہ گھرانہ میرے کلینک پر باقائدہ آتا تھا تو میں نے سوچا کہ ان کو ذرا سخت لفظوں میں نصیحت کی جائے ۔ ان کے والد کو میں نے کہا کہ سگریٹ نوشی انتہائی مضر صحت ہے اور یہ سرطان یا دل کے دورے کا باعث بن سکتی ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ کی وجہ سے آپ کی بیٹی بھی بلاواسطہ تمباکو نوشی کا شکار ہورہی ہے ۔ اور گھر کے دیگر مسائل میں خاتون خانہ کا موٹاپا بھی مضر صحت ہے ۔ بیٹے کی شراب نوشی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے اور بیٹی کو والدین کی توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔ باپ نے کہا کہ وہ سگریٹ نوشی کم کرنے کی کوشش کرے گا اور والدہ نے کہا کہ وہ بھی بسیار خوری سے پرہیز کریں گی اور ورزش بھی شروع کریں گی ۔ مگر ان کے بیٹے نے مجھے غصے سے گھورا اور یہ تک نہیں کہا کہ وہ کوششں کرے گا۔ لڑکی اپنی فراک کو لہرا کر رہ گئی اور ملازمہ اس کی طرف فکریہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
پھر ایک دن جو ہونا تھا وہ ہوگیا ۔ وہ شخص سینے میں درد کی شکایت کے ساتھ لایا گیا ۔ ممکنہ دل کے دورے کے سبب اسے فوراً ہی انتہائی نگہداشت والے کمرے میں داخل کرلیا گیا ۔ پچھلی رات کو وہ اپنے بیٹے کی بے جا شراب نوشی پر غصہ ہوا تھا اور غصے ہی کی حالت میں اپنا آپ بھی سگریٹ نوشی کرکر کے سیاہ دھوئیں میں پھونک ڈالا تھا ۔ دوسری طرف اس کی بیوی بھی بسیار خوری کرکر کے بدہضمی کی مریضہ بن چکی تھی ۔ ان کی بیٹی بھی بے جا چھینکوں اور دمے کا شکار رہنے لگی۔
اگر وہ شخص اپنے ممکنہ دل کے دورے کی آمد سے آگاہ رہتا تو اسے فوری طور پر کسی نذدیکی یورپی ملک جانا چاہئے تھا تاکہ دل کے دورے سے بچا جا سکے۔ کیوں کہ امیر لوگ بڑی آسانی سے مہنگا علاج کرواسکتے ہیں بغیر کسی بڑے مالی خسارے کے۔ اب چوں کہ وقت نہیں تھا اس لیے وہ ہمارے علاقائی بوتیک ہسپتال پہنچ سکا۔ اس کو فوری طور پر جان بچانے والی دوائیں دی گئیں اور دل کی شریانوں کو کھلا رکھنے کے لئے اسٹینٹس ڈال دیے گئے۔ ایک مہنگے کمرے میں دس دن کی انتہائی دیکھ بھال اور بحالی کے بعد ہی وہ صحت یاب ہوسکا۔ ہسپتال میں اس کا کمرہ لاتعداد گلدستوں سے بھرا ہوا تھا جو کہ اس کے دولت مند خیر خواہوں اور خوشامدیوں نے بھیجے تھے ۔ اب وہ اپنے دل کے بارے میں اتنا فکر مند تھا کہ دل کے ڈاکٹر سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی سگریٹ نوشی نہیں کرے گا اور باقاعدگی سے ورزش کیا کرے گا۔ حتیٰ کہ اب وہ اپنی تیمارداری کے لیے آنے والوں کو بھی یہی نصیحت کرتا ہے ۔ ان کے گھر جانے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد اس کی بیوی میرے کلینک پر آئی اور اعلانیہ کہنے لگی کہ وہ اپنے شوہر کی بہتر دیکھ بھال کرے گی۔ اور کہنے لگی کہ ان دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ دل کا بائی پاس کروانے کے لیے امریکا جارہے ہیں یہاں ہمارے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کئی ملازم ہیں ۔ اگر کوئی طبی مسئلہ ہوا تو ڈاکٹر صاحبہ آپ ان کو دیکھ لیجیئے گا وہ مسکرا کر بولی، میں ان دونوں کے بارے میں کتنی فکرمند ہوں۔
بیوی شوہر کے دل کے اعلاج کے لیے امریکا روانہ ہوگئی۔ بیٹا اب بلاروک ٹوک شراب نوشی کر سکتا تھا ۔ اب تو وہ اپنے باپ کے چھوٹے ہوئےسگریٹ بھی پینے لگا اور عادی ہوگیا ۔ جہاں تک بیٹی کا تعلق تھا اس نے کھانا بالکل چھوڑ دیا تھا سونا بھی کم کر دیا تھا اور اس کے پیٹ میں شدید درد رہنے لگا تھا ۔ باورچی نے کھانا بنانا بند کردیا اور ان کی ملازمہ پڑوس کے ڈرائیور کے ساتھ بھاگ گئی تھی ۔
نفس پروری کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔
Original Title : The wages of Indulgence
Written by: Dr. Naseem Salahuddin
Book: Among My Own (The untold stories of my People)
محمد محمود (پیدائش: 1969ء ، حیدرآباد، سندھ) اسلام آباد کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تاریخ پڑھاتے ہیں۔ ترجمہ نگاری سے گذشہ دو سالوں سے وابستہ ہیں۔ آپ کے تراجم سہ ماہی “ادبیات” اور دیگر ممتاز جرائد میں شایع ہوچکے ہیں۔
اس ای میل کے ذریعے آپ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔