fbpx
ادبی کالم

طبقاتی شعور اور جذب کا شاعر (رفیق سندیلوی)/ تحریر: پروین طاہر

رفیق کی نظم کے لئے میری پسندیدگی کی وجہ آرٹ اینڈ کرافٹ کا بیلنس ہے. آج کے جدید شاعر خصوصا نظم کے شاعر کےلئےصرف آرٹ یا صرف تخلیقی بہاؤ پر بھروسہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ اِس کا مقصد صرف کتھارسس نہیں وہ اپنے علمی ورثے اپنے فن کی باریکیاں خیال کی نزاکت اور بدلتی جمالیات کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہتا ہے اور رفیق کے ہاں تو یہ شعور” لاشعور” میں آمیخت ہو جاتا ہے.

آس کی نظمیں جمال سے زیادہ خیال کی نظمیں ہیں. مگر وہ ان نظموں کو کمال اور جمال کی معیت میں پیش کرتا ہے. میں اُس کی اس خوبی کو دل سے پسند کرتی ہوں کیونکہ اُس نے اردو نظم کے رنگوں, ذائقوں اور جہتوں میں اضافہ کیا. آئیے اب ہم آس کی نظموں کی دنیا کی سیر کرتے ہیں اس کی نظموں کو میں مندرجہ ذیل اقسام میں شمار کرتی ہوں

(1) طبقاتی شعور کی نظمیں

(2)انسانی نفسیات کی نظمیں

(3) جذب کی نظمیں

(4) اسطور سازی کی نظمیں

تو ہم سب سے پہلی قسم پر بات کرتے ہیں. رفیق کی یہ بات قابل ستائش ہے کہ وہ طبقاتی شعور کا آدمی نچلے اور نچلے متوسط طبقے سے نہ صرف ہمدردی رکھتا ہے بلکہ اس کے درد ,آس کے دل سے آٹھنے والی ہوک میں اپنے ضمیر اور شاعر دل کی آواز شامل کرتا مگر اس سلسلے میں وہ بلند آہنگ سیاسی شاعری کا قائل نہیں بلکہ بات کو ہنر اور سلیقے سے دوسروں تک پہنچاتا ہے کیونکہ وہ اپنے ادبی مقام کے بارے میں بہت conscious ہے. وہ بات کو بعض اوقات علامتی اور استعاراتی زبان میں کرتا ہے اور اگر نظم کے تقاضے کے مطابق ڈائریکٹ بات بھی کرے تو ایسے طریقے سے کہ نظم اپنا ادبی وقار قائم رکھتی ہے اس ضمن میں سب سے پہلی نظم تندور والا پیش کرتی ہوں اس نظم کی قرات کے دوران آپ محسوس کریں گے کہ ایک عام سا بیانیہ کس مقام پر نظم کو آفاقی جہت سے ہم کنار کرتا ہے.

رفیق

 تندور والا

سُنو یہ جہنم نہیں ہے/ دہکتے ہُوئے سُرخ شعلوں کی لَو/تیز گہری حرارت/تپش آگ کی/

اِن مدّورکِناروں سے/اٹھتی ہُوئی بھاپ میں زندگی ہے/

سُنو، مَیں نے خود ہی اِسے/

اپنے ایندھن سے روشن کیا/

صبح سے شام تک/میں نے آٹے کو گوندھا/خمیرہ کیا/گول پیڑے بنائے/رفیدے سے روٹی لگائی/پکی، اُس پہ جب پُھول آئے/تو مَیں نے پرو کےسیہ سیخ کی نوک سے/اس کو باہر نکالا/

مَیں روٹی کے پُھولوں کا عاشق

سدا کا مَیں اِک نان بائی/ہمیشہ سے مَیں ایک تندور والا!

زمانے،

ترے ساتھ مَیں پھول چُننے چلوں گا

ابھی میرا تندور نیچے سے اُوپر تلک تپ رہا ہے

طباقوں میں دو بوری گوندھا ہُوا

نرم آٹا پڑا ہے

جسے روٹیوں میں مجھے ڈھالنا ہے

ازل سے مجھے اِس جہنم سے روٹی ملی ہے

مدوّر کناروں سے

اُٹھتی ہُوئی بھاپ میں زندگی ہے

سُنو، یہ جہنم نہیں ہے!!

نظم ایک تندور والے کے سادہ سے بیان سے اور جذبات سے شروع ہوتی ہے اور آخری ستانزا تک آکر ایک دم سے حساسیت اور انسانی احساس جمال کی بلندیوں کو چھو لیتی ہے. یہ دوسطریں دیکھیے

1 زمانے ترے ساتھ میں پھول چننےچلوں گا

2 سُنو یہ جہنم نہیں ہے…..

دوسری نظم ہے”قبر جیسی کھاٹ میں” میں ہے لوئر کلاس کی صبحوح اور شاموں کا ذکر ہے جو کسی جہنم سے کم نہیں مگر انسان کی خواب دیکھنے کی صلاحیت اسے حیوانوں جیسی زندگی سے نبرد آزمائی کےباوجود اسےشرف انسان کے احساس سےہم کنارکرتی ہے کہ وہ خواب دیکھ سکتا ہے

ازل سے ہست کا یہ کارخانہ چل رہا تھا /شفٹ پہلی ختم ہونے کو تھی/ آگے دوسری تیار تھی/پیہم گراری چل رہی تھی/دائرہ اک سائیکل/ میں سائیکل پر ڈولتا/ محصور تنگ و تاریک گلیوں/اور رستوں کے بھنور سے بچ بچا کے/ تین بائی پانچ فٹ کی/قبر جیسی کھاٹ میں پہنچا /جہسں اک خواب میرا منظر تھا.

ایک نظم جو ذاتی طور پر مجھے بہت ہی پسند "لال بیگ اُڑ گیا "ہے وہ اگرچہ علامتی ہے مگر اس نظم کی قرات ہمیں انسانی صلاحیتوں کے ادراک اس کی بے اختیاری کے باوجود اس کے اختیار کا شعور بخشتی ہے. جس میں بہت خوبصورتی سے یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اگر حالات کے ہاتھوں یا کسی جسمانی معذوری میں مبتلا ہو بھی جائے پھر بھی اس تاریکی میں اس کا دماغ اور حوصلہ اُسے رفعت پرواز بخشتا ہے.

ہست کی گرہ میں

اُس کی لانبی ٹانگ

اک انوکھے پیچ میں اُلجھ گئی

تو ٹیس درد کی اٹھی

وجود پھڑپھڑا گیا!

جھٹک کے ٹانگ

پیچ سے نکال لی

تو ایک دم اُسے لگا

کہ اُس کی دسترس میں پَر بھی ہیں

عجیب ثانیہ تھا

پانیوں کی ہولناک بُو میں

کیچ کی اُمس میں

دونوں وقت مل رہے تھے

ہالہء نفَس میں

دھیرے دھیرے اُس کے

صندلیں سُنہری پَر بھی ہل رہے تھے!

لال بیگ

جو شروع دن سے

موت اور زندگی

صفائی اور گندگی

نکاسیِ وجود

خیر و شر

روانی و جمود کے معاملات میں گھرا ہُوا تھا

خاکروبوں، مہتروں کے ساتھ

کائناتی موریوں، زمانی بدرووں میں

رہتے رہتے تنگ آ گیا تھا

راستے کے بیچ ہی سے مُڑ گیا!

اچانک ایک روز

لال بیگ اُڑ گیا!!

رفیق کی نظموں کی دوسری قسم جو ہم نے دریافت کی ہے وہ ہے انسان کی پیچیدہ نفسیات کی گرہ کشائی اور ان معاملات کے بارے میں غور خوض ہے

. انسانی جسم کا روح سے کیا رشتہ ہے؟ کیا جسم اہم ہے یا روح؟ روح کو بدن سے علیحدہ کیا جائے توکیا اذیت ہے؟ یا پھر انسانی جسم کے تقاضے بھوک اور جنس انسانی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو رفیق کی دوسری قسم والی نظمیں اٹھاتی ہیں. ایک نظم جس کا میں نے اس آرٹیکل کے شروع میں ذکر کیا وہ ہے” مراتب وجود بھی عجیب ہیں ” جس طرح رفیق بہت دفعہ انسانی جذبات کی sublimation پر انسان کی حیوانی سطح کو ایک ارتفاع پر لے جاتا ہے تو اس کے معکوسی عمل پر بھی یقین رکھتا ہے. جس وقت میں. نے اس نظم کا تجزیہ کیا تھا تو میں اس نقطے سے جاں بوجھ کر صرف نظر کر گئی تھی مگر آج بیان کر سکتی ہوں کہ انسان پر جب جنسی بھوک غالب آتی ہے تو کس طرح انسانی جبلت انتہائی طاقتور روپ دھار کر اس کےانسانی وجود پر حملہ کرتی ہے

مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں : رفیق سندیلوی

اچانک اِک شبیہ

بے صدا سی جست بھر کے

آئنے کے پاس سے گزر گئی

سیاہ زرد دھاریاں

کہ جیسے لہر ایک لہر سے جڑی ہوئی

سنگار میز ایک دم لرز اٹھی

کلاک کا طلائی عکس بھی دہل گیا

بدن جو تھا بخار کے حصارمیں پگھل گیا

مراتب ِوجود بھی عجیب ہیں

لہو کی کونیات میں

صفات اور ذات میں

عجب طرح کے بھید ہیں

یقین و ظن کی چھلنیوں میں

سو طرح کے چھید ہیں

ابھی تو جاگتا تھا مَیں

عمیق درد میں کراہتا تھا مَیں

آخری ستانزا دیکھیے

خبر نہیں کہ ہڈیوں کے جوڑ کس طرح کھلے

دہن فراخ ہو کے،پیچھے کیسے کھنچ گیا

نکیلے دانت کس طرح نکل پڑے

نگاہیں کیسے شعلہ رُو ہوئیں

نہ جانے کیسے دست و پا کی انگلیاں مُڑیں

کمر،لچک سی کھا کے کیسے پھیلتی گئی

یہ جلد کیسے سخت کھال میں ڈھلی

یہ گپھے دار دُم کہاں سے آ گئی!

وجود کے کچھار میں

دہاڑتا ہوا

زقند بھر کے مَیں کہاں چلا گیا

مجھے توکچھ پتا نہیں

مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں!!

آس قبیل کی دوسری نظم "کسی رخ کی سمت نہیں اُڑا” سے اقتباس دیکھیے جس میں جنس کی طلب اپنے ہم پلہ محبوب کی تلاش نہ ملنے پر خود اپنے خیال میں ecstasy کی حدوں کو چھو لینا… کس قدر مہارت حسن اور تخلیقی انداز سے بیان کیا گیا ہے

وہ دُھندلکا تھاکسی صبح کا یا کہ شام کا

مَیں اُسی طرح ہی پڑا تھا خُشک زمین پر

تری شاخِ تر،تری شاخِ سبز کے دھیان میں

کہ عجیب واقعہ ہو گیا اُسی آن میں

مری پتّی پتّی

جو انقطاع کے دُہرے غم میں نڈھال تھی

وہ ہوائے غیب کے زور سے

پھر اُسی طرح ہی کے ضبط وبست میں آگئی

وُہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا

وُہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا

مگر اب کے یک جا ہُوا تو مَیں

کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا

وہیں اپنے روغنِ حُسن میں

وہیں اپنے حجلۂ رنگ میں

وہیں اپنے مرکزِ درد میں

وہیں اپنے سُرخ میں، زرد میں

وہیں اپنے مُشکِ وُجود ہی میں پڑا رہا

کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا!!

تیسری قسم یعنی جذب کی نظموں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر مضمون کی طوالت کے پیش نظر ایک مثال کے طور پر ایک ایک نظم پیش کروں گی جس میں رفیق کے حقیقی اور مجازی حزب کی ساری صورتیں بیک وقت دیکھی جا سکتی ہوں.

مَیں اُس کا ہوں :

مَیں اُس کا ہُوں

جو میری آگ ہے

اور میرا دریا ہے

جو بارش کے تقاطُر میں

ازل سے جھلملاتا ہے

لپکتے سرخ رُو شُعلوں میں

جس کا سانس جاری ہے

جو نُوری ہے نہ ناری ہے

جو میری رات کے غائب اُفق پر

میرے حاضر کا ستارہ ہے

مَیں اُس کو اپنی تاریکی کے دِل میں

اپنے محمِل میں

بُلاتا ہُوں

مَیں اُس کا ہُوں

جو میری خاک ہے

اور میرے کوچے کی ہَوا ہے

جو سُبک قدموں سے آتا ہے

زمانی سیڑھیوں پر

لرزۂ نامحرمی میں ڈگمگاتا ہے

رفیق کی نظموں کی چوتھی قسم اسطور سازی ہے اس ضمن میں نظموں میں عام طور پر دو طرح کی ٹریٹمنٹ نظر آتی ہیں یا تو کسی اسطورہ کو بطور سمبل یا بطور تلمیح استعمال کیا جاتا ہے یا اپنے تخیل اپنی حس جمال کو استعمال کرکے ایک نئی داستاں یا اسطورہ تخلیق کیا جاتا ہے جدید نظم کے کلاسک میں ن م راشد کی نظم” حسن کوزہ گر” اور معاصر میں علی محمد فرشی کی نظم "علینہ” مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں رفیق کی ہاں یہ نظم” سواری اونٹ کی ہے” آس ضمن میں شمار کی جائے گی جو نہ صرف اردو ادب میں زندہ رہ جانے والی نظم ہوگی بلکہ رفیق کے کلاسیکی ادب کے ساتھ اسلام اور وابستگی کا ثبوت بھی ہے آپ کے لئے اور ان کے لیے جن تک رفیق کی یہ نظم نہیں پہنچی ذیل میں درج کی جاتی ہے

سواری اُونٹ کی ہے

سواری اُونٹ کی ہے

اَور مَیں شہر ِ شکستہ کی

کسی سنساں گلی میں

سَرجھکائے

ہاتھ میں بَد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر

اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں

جس کی چوکھٹ پر

ہزاروں سال سے اِک غم زَدہ عورت

مِرے وعدے کی رَسّی

ریشۂ دل سے بنُی مضبوط رسّی سے بندھی ہے

آنسوؤں سے تر نگاہوں میں

کسی کُہنہ ستارے کی چمک لے کر

مرے خاکستری ملبوس کی

مخصوص خوش بُو سُونگھنے کو

اَوربُھورے اُو نٹ کی

دُکھ سے لبالب بَلبلاہَٹ سُننے کو تیّار بیٹھی ہے

وُ ی سیلن زدہ اُوطاق کا گوشہ

جہاں مَیں ایک شب اُس کو

لرَزتے‘سَنسناتے‘زہر والے

چُوبی تیروں کی گھنی بارش میں

بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا

مجھے سب یاد ہے قصّہ

برس کراَبر بالکل تھم چکا تھا

اوِر خلا میں چاند یوں لگتا تھا

جیسے تخت پر نَو عُمر شہزادہ ہو کوئی

یوں ہَوا چہرے کو مَس کر کے گزرتی تھی

کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی

اپنے ٹھنڈے اورگیلے خول کے اَندر

گلی سوئی ہوئی تھی

دَم بہَ خوُ د سارے مکاں ایسے نظر آتے تھے

جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں

موم کے تَرشے ہوئے ہوں

اِک بڑی تصویر میں

جیسے اَزل سے اِیستادہ ہوں

وُ ہی سیلن زدہ اُوطاق کا گوشہ

جہاں مَہ تاب کی بُرّاق کرنیں

اُس کے لانبے اورکُھلے بالوں میں اُڑسے

تازہ تر انجیر کے پتّے کو روشن کر رہی تھیں

اُس کی گہری گندُمِیں کُہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو

نہیں بھولا ابھی تک سارا قصّہ یاد ہے مجھ کو

اُسی شب

مَیں نے جب اِک لمحۂ پُرسُوز میں تلوار

اُس کے پاؤں میں رکھ دی تھی

اور پھریہ کہا تھا:

’’میرا وعدہ ہے یہ میرا جسم اوراِس جسم کی حاکم

یہ میری باطنی طاقت قیامت

اوِر قیامت سے بھی آگے

سرحدِامکاں سے لا امکاں تلک

تیری وفا کا ساتھ دے گی

وقت سُنتا ہے

گواہی کے لئے آکاش پر

یہ چاند قدموں میں پڑی

یہ تیغ اوِر بالوں میں یہ اِنجیر کا پتّا ہی کافی ہے

خداوند !

وہ کیسا مرحلہ تھا

اَب یہ کیسا مرحلہ ہے؟

ایک سُنسانی کا عالم ہے

گلی چُپ ہے

کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی

یہ کیسی ساعتِ منحوس ہے ؟

جس میں ابھی تک کوئی ننّھاسا پرندہ

یا پتنگا یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری

کسی بھی مرد و زَن کی

مَیں نے صورت ہی نہیں دیکھی

سواری اُونٹ کی ہے

اَور مَیں شہر ِشکستہ کی

کسی سنساں گلی میں

سَرجھکائے

ہاتھ میں بَد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر

اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں

یا کسی محشر خموشی کے

کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں

ہچکیوں اوِر سِسکیوں کے بعد کا محشر

کوئی منظر ‘ کوئی منظرکہ جس میں اِک گلی ہے

ایک بُھورا اُونٹ ہے

اوِر ایک بُزدِل شخص کی ڈِھیلی رفاقت ہے

سفر نا مختتم

جیسے اَبد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے!

سواری اُونٹ کی

یا کاٹھ کے اَعصاب کی ہے

آزمائش اِک انوکھے خواب کی ہے

پتلیاں ساکت ہیں

سایہ اُونٹ کا ہلِتا نہیں

آئینۂ آثار میں ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں

اُس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں

کب سے گلی میں ہوں

کہاں ہے وُ ہ مری پیاری مری سیلن زدہ اُوطاق والی

وُ ہ سُریلی گھنٹیوں والی

زمینوں ‘پانیوں اور اَنفَس وآفاق والی

کس قدر آنکھوں نے کوشِش کی

مگر رونا نہیں آتا

سبب کیا ہے ؟

گلی کا آخری کونا نہیں آتا

گلی کو حکم ہو

اَب ختم ہو جائے

مَیں بھُورے اور بو ڑھے اُو نٹ پر بیٹھے ہوئے

پیری کے دِن گنتا ہوں

شاید اِس گلی میں رہنے والا

کوئی اُس کے عہد کا زَنبوُ ر ہی گزرے

مَیں اُس کی بارگہ میں

دست بستہ

معذرت کی بھیک مانگوں

سَر ندامت سے جھکاؤں

اَوراُس زَنبوُ ر کے صدقے

کسی دِن اَپنے بوڑھے جسم کو

اوِر اُونٹ کو لے کر

گلی کی آخری حد پار کر جاؤں

دوستو رفیق سندیلوی کی نظموں کے بارے کہا تو بہت جا سکتا ہے مگر اس کی مضمون کی نوعیت کے پیش نظر نظموں کے زیادہ سے زیادہ اقتباس پیش کئے ہیں میں اپنی تفہیم اور تعبیر کو رفیق کے اور آپ کے بیچ حائل نہیں کرنا چاہتی کیونکہ مجھے آپکے ذوق اور نظم فہمی پر اعتبار ہے

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے