علی اکبر ناطِق
نولکھی کوٹھی کے متعلق مَیں یہ دعویٰ تو ابھی نہیں کر سکتا کہ وہ اساطیر کے درجے تک پہنچ چکی ہے البتہ احباب کی طرف سے اِس ناول کے متعلق پوچھے جانے والے سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجھے یہ ناول لکھنے کا خیال کیوں اور کیسے آیا۔ مَیں چونکہ پوری طرح سے اِس کا جواب دینے سے قاصر تھا، لہٰذا ہمیشہ خموشی اختیار کر لی۔ اب جب کہ اِس کا انگریزی ترجمہ پینگوئن (انڈیا) چھاپنے جا رہا ہے جسے نائمہ راشد Naima Rashid نے بہت محنت سے تکمیل تک پہنچایا ہے تو یہی سوال دوبارہ جنم لے چکا ہے۔ چنانچہ ناول کے آغاز کرنے کے متعلق چند ایک باتیں لکھنا چاہوں گا۔
سب سے پہلے تو میرا ایک پس منظر سُن لیں۔ ہمارا خاندان تقسیم سے پہلے مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کی تحصیل جلال آباد میں رہتا تھا۔ یہ کافی بڑا خاندان تھا۔ وہاں اِن کا گاؤں جھنڈو والا تھا۔ جہاں سِکھ مسلمان جھگڑے عروج پر تھے اور انگریز کی حکومت تھی۔ یہی علاقہ نواب ممدوٹ کا بھی تھا جس کا والد سر شاہنواز ممدوٹ محمد علی جناح کا دستِ راست تھا۔ میرے خاندان کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ والد صاحب وہیں پیدا ہوئے اور تقسیم کے وقت اُن کی عمر بارہ یا تیرہ برس تھی۔ تقسیم کے بعد جب ہم مغربی پنجاب میں آئے تو گاہ گاہ مختلف علاقوں میں رہنے کے بعد آخر کار اوکاڑا کے اِسی گاؤں میں آباد ہو گئے جسے ۳۲ ٹو ایل کہا جاتا ہے۔ یہ گاؤں بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ درختوں، پرندوں، پانیوں اور ہرے بھرے کھیتوں سے بھرا ہوا۔ مَیں یہیں مَیں پیدا ہوا۔ میرے دادا میری ہوش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے لیکن دادی زندہ تھی۔ مَیں چھوٹا سا تھا تو اپنی دادی کی گود میں سوتا تھا۔ وہ مجھے لوری دینے کے ساتھ اپنے سابقہ وطن کی باتیں بتایا کرتی تھی، وہ اکثر اپنے وطن کو یاد کر کے روتی بھی تھی اور تقسیم کے وقت جو قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تھا اُس کے ایک ایک جُز کو ایسے بیان کرتی کہ اُس کا نقشہ عین میری آنکھوں کے آگے پھرنے لگتا۔ اکثر واقعات سناتے ہوئے اُس کی اپنی ہچکیاں بندھ جاتیں۔ اور ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے اپنے اُس گھر کو دوبارہ دیکھنے کی تمنا کرتی۔ میری یادداشت میں اُس کی بہت سی باتیں محفوظ رہ گئیں۔ وہ اپنے گاؤں کا نقشہ، وہاں کے درخت، وہاں کے مال مویشی، ہوائیں، مٹّی، چرند پرند، نہریں کھلیان اور روہی کے علاقے کی کہانیاں سب کچھ بتاتی تھی۔ مَیں یہ کہانیاں سُنتے ہوئے آہستہ آہستہ بڑا ہوتا گیا۔ حتیٰ تیرہ سال کی عمر تک مَیں اپنی دادی کے پہلو میں ہی اُسی کے بستر پر سوتا تھا اور طرح طرح کے واقعات سنتا تھا۔ اُس نے مجھے اپنی ہجرت کے دوران پیش آنے والے ہزاروں قصے ایسے سنائے کہ ایک ایک قصہ ایک ایک ناول کا خزانہ رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ اِس عرصے میں میرے لاشعور میں اُتر گیا۔ اور مجھے فیروز پور کے علاقہ جلال آباد سے ایک گونا عشق ہو گیا۔ چونکہ میری دادی کا فیروز پور اور جلال آباد برٹش دور کا تھا لہٰذا مجھے فیروز پور کے ساتھ ساتھ برٹش دور سے بھی لگاؤ ہو گیا۔ پھر یہ ہوا کہ ۱۹۸۸ میں دادی فوت ہو گئی۔
دادی کے فوت ہونے کے بعد میری اپنے والد اور چچا نذیر سے بہت زیادہ انسیت ہو گئی۔ والد صاحب ہیر وارث شاہ کے گویا حافظ تھے اور چچا نذیر احمد ایک طرح سے داستان گو تھے۔ وہ اپنی طرف سے کئی قصے گھڑ کر پُرلطف انداز میں سنانے کے ماہر تھے۔ چچا کا مزاج آوارہ گرد کا تھا۔ شادی بھی نہیں کی۔ وہ بھی جلال آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ مَیں نے کئی ایک داستانیں اُن کی زبان سے سُنیں۔ اِنھی میں سے ایک داستان سنایا کرتے تھے جس میں ایک انگریز افسر اور چوہدری غلام حیدر اور کچھ سِکھ کردار ہوتے تھے۔ یہ داستان کچھ حقیقت اور کچھ خود ساختہ تھی لیکن بہت مزے کی تھی۔ دوسری طرف والد صاحب کو کئی واقعات ہجرت کے یاد تھے اور وہ اکثر سناتے تھے۔ یوں اِن دونوں یعنی والد اور چچا نے دادی کے کام کو میرے لیے انجام دینا شروع کر دیا۔ اِسی دور میں اپنی والدہ کے ساتھ مَیں رینالے جاتا تھا۔ رینالے میں میری والدہ کے بھائی اور والد رہتےتھے یعنی میرا نانا اور ماموں۔ یہاں مجھے نہری کوٹھیوں کو دیکھنے اور وہاں سیریں کرنے کا خوب موقع ملا۔ یہ شہر انگریزی افسروں نے تعمیر کی تھا اور بہت خوبصورت چھوٹا سا شہر تھا۔ یہاں نہروں کا عملہ رہتا تھا۔ یہیں ایک مچلز فروٹ فارم تھا۔ یہ بھی ایک انگریز ہی کا تھا۔ یہ علاقہ بھی اپنی فطری خوبصورتی اور انگلش عمارتوں کے سبب مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اور اکثر اِن جگھوں پر سیر کے لیے کبھی سائیکل پر ،کبھی پیدل چلا آتا تھا اور شام تک آوارگی کرتا رہتا تھا۔ یہاں کئی بار مجھے ایک بوڑھا انگریز ہاتھ میں چھڑی لیے چلتا پھرتا نظر آتا تھا لیکن کبھی اُس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب مَیں گیارہویں میں تھا، میرے چچا اچانک فوت ہو گئے لیکن اُن کی سنائی ہوئی داستانیں میرے لاشعور میں رہ گئیں۔
جب مَیں نے میٹرک اپنے گاؤں کے سکول سے پاس کر لی تو انٹر میں داخل ہونے کے لیے اوکاڑا گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے بالکل سامنے ایک کمپنی باغ تھا۔ یہ کمپنی باغ تقسیم سے پہلے انگریز فیملیز کے لیے بنایا گیا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد اِس کا نام لیڈی پارک رکھ دیا گیا مگر لوگ اسے کمپنی باغ ہی کہتے رہے۔ کمپنی باغ میں ہزاروں سایہ دار درخت اور ہزاروں پرندے تھے۔ کچرے وغیرہ کا کوئی زمانہ نہیں تھا۔ یہاں ایک چھوٹی سی ریل چلتی تھی جو بچوں کو جھولے دینے کے لیے چلائی گئی تھی اور یہ کوئلے پر چلتی تھی۔ درخت دو تین سو سال پرانے تھے۔
ٍٍیہ ۱۹۹۱ کا زمانہ تھا۔ مَیں کالج سے نکل کر اکثر اکیلا اِس پارک میں چلا آتا اور اُس کی خوبصورتیوں سے لطف اٹھاتا۔ اِسی دوران مَیں نے ایک دن اُسی بوڑھے انگریز کو یہاں دیکھا جو رینالے کی نہری کوٹھیوں کے آس پاس گشت کیا کرتا تھا ۔ اِس کی عمر اَسی سال کے لگ بھگ تھی۔ اُس سے کبھی کمپنی پارک میں سامنا ہوتا، کبھی نہری کوٹھیوں پہ ٹاکرا ہو جاتا ۔ اُس کے سر پر پرانی پھٹی ہیٹ ہوتی اور ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی تھی۔ مَیں سوچتا اللّٰہ جانے کی بڈھا کون ہے اور یہاں کیا کرتا پھرتا ہے۔ اگرچہ اب کئی بار اُس کا سامنا ہوا مگر ابھی تک مَیں نے اُس پر کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ اوکاڑہ کے سرکاری مہاتموں نے شہر کے درختوں پر آرے رکھنے شروع کر دیے، ریلوے سٹیشن کے تمام درخت کاٹ ڈالے، شہر کی سڑکیں ننگی ہونے لگیں۔ پرانی کچہریاں کھنڈرات میں تبدیل ہونے لگیں اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال میں شہر میں ایک قسم کی ویرانی در آئی۔ پھر ایک دن سرکاری بابوئوں کو خیال آیا کہ کمپنی باغ کیوں محفوظ ہے ؟ اب پہلے وہاں کی ریل اُٹھا دی گئی ۔ پٹڑی اُکھاڑ دی اور درخت کٹنے لگے ۔ایک دن مَیں نے دیکھا وہ انگریز ایک پیپل کے درخت کو کاٹنے سے مزاہم ہو رہا تھا۔ کافی مزاحمت کے بعد اُس نے کمپنی باغ کے اُس درخت کو کٹنے سے بچا لیا۔ اُسی دن سے مَیں نے اُس سے ایک شناسائی کا تعلق بنا لیا اور یہ تعلق دو سال چلا۔ اُن دِنوں یہ انگریز بڈھا نہری کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہتا تھا اور اوکاڑا سے رینالہ تک آوارہ گردی میں پھرتا تھا۔ اِس دو سال کے عرصے میں اِس سے بہت سی باتیں ہوئیں ۔ مجھے معلوم ہوا یہ بوڑھا تقسیم سے پہلے ڈی سی رہ چکا ہے ۔ پھر جب اِس نے بتایا کہ اُس کی تعیناتی فیروز پر کی تحصیل جلال آباد میں رہی ہے تو مجھے ا،س سے بہت دلی لگائو سا ہو گیا۔ نولکھی کوٹھی کا پہلی بار اِسی کی زبان سے ذکر سُنا لیکن تب مَیں نے وہاں کا وزٹ نہ کیا۔ شاید اُس وقت مَیں نے اِس کی ضرورت محسوس نہ کی تھی، حتیٰ کہ نولکھی کوٹھی میرے دماغ سے محو ہو گئی اور یہ بوڑھا انگریز البتہ ذہن سے چپک گیا۔ غالباً ۱۹۹۲ میں یہ بوڑھا فوت ہو گیا لیکن وہ بہت سی کہانیاں میرے حوالے کر گیا۔
۱۹۹۴ میں نیسلے مِلک پیک سے وابستہ ہو گیا۔ یہ کمپنی وسطی پنجاب سے دودھ اکٹھا کرتی تھی۔ مَیں اِس کمپنی میں بطور ملک کولیکشن سپروائزر تھا۔ میری ڈیوٹی حویلی لکھا، بصیر پور، حجرہ، ہیڈ سلیمانکی کے علاقے میں تھی۔ مَیں نے تین سال اِن علاقوں میں کام کیا اور یہاں کے رسم و رواج، جغرافیے اور لوگوں کے معاشرتی رویوں سے کافی واقفیت ہوئی۔ یہ تمام علاقے اٹھاڑ اور اُتاڑ کے چوروں کی جنت تھے۔ دریائے ستلج کا وسیع علاقہ اور اُس کے بائیں کنارے ہندوستان کی سرحد مجھے بہت زیادہ پسند آئی۔ اِن دِنوں ہندوستان بارڈر میں زیادہ سختی نہیں تھی ، نہ تاریں لگائی گئیں تھیں، البتہ جنگلات، پانی اور جھاڑ جھنکاڑ کے باعث نہات دشوار گزار تھا۔ اِن علاقوں کے لوگ بارڈر کے آر پار سے لین دین کرتے تھے۔ دونوں طرف کی رینجرز بھی اِس تجارت میں اپنا حصہ وصول کرتی۔ مجھے بھی دو بار سرحد پار جانے کا موقع ملا اور مَیں اپنے آبائی علاقوں میں گیا۔ شاید اپنے لڑکپن کے باعث اُس وقت مجھے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے جیسے اقدام کی حساسیت کا علم نہ تھا۔ ورنہ یہ قدم کبھی نہ اٹھاتا مگر اِسی بے احتیاطی کے ذریعے مَیں نے اُن تمام علاقوں کا لمس لے لیا جن پر کبھی میرے اب و جد کے قدم پڑے تھے ۔ مجھے فیروز پور ، جلال آباد، بنگلہ فاضل کا اور اپنی دادی، دادا اور والد کے گاؤں جھنڈو والا جانا نصیب ہوا۔ اِس تمام علاقے کے دیکھنے سے مجھ پر ایک جادوئی سا اثر ہوا۔ کیونکہ پورے علاقے میں ایک عجیب قسم کی اپنایت تھی۔ مَیں نے محسوس کیا، گویا یہی میرا اصلی وطن ہے۔ میرے چچا نے، جو مجھے داستانیں سنائی ہوئی تھیں وہ بھی یہیں کی تھی۔
پھر ۱۹۹۸ میں میری ملاقات اپنے شہر اوکاڑا کے ایک دوست جاوید مانو سے ہوئی۔ یہ کافی پڑھا لکھا خوش طبع آدمی ہے۔ مَیں اور میرا ایک دوست احمد شہزاد لالہ اکثر جاوید مانو کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگے۔ جاوید مانو مشہور انگریزی ناولسٹ محمد حنیف کا بچپن کا دوست بھی ہے۔ اُنھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں نولکھی کوٹھی کا وزٹ کروں۔ چنانچہ مَیں نے اپنے دوست احمد شہزاد لالہ کے ساتھ نولکھی کوٹھی کا وزٹ کیا۔ تب تک یہ کوٹھی اپنے در و دیوار اور پورے سازو سامان کے ساتھ موجود تھی۔ چاروں طرف آم کے باغات تھے اور نہایت پرفضا جگہ تھی۔ اِس پہلے وزٹ کے بعد مَیں اکثر وہاں جانے لگا۔ یہیں مَیں نے دوبارہ اُس فوت شدہ بوڑھے انگریز کو محسوس کیا اور دل ہی دل میں نئے سرے سے اُس کی زندگی کا احاطہ کرنا شروع کر دیا مگر یہ سب کچھ اس لیے نہیں تھا کہ مَیں اِس پر کوئی ناول لکھوں گا بلکہ فطرتی طور پر مَیں ہر اُس چیز پر تجزیاتی نظر ڈالتا رہتا ہوں جس کے اندر گہرائی کا عنصر نظر آتا ہے۔
اگر اِن درج بالا تمام واقعات کو سامنے رکھیں اور اُس کے بعد میری پنجاب میں ایک ایسے علاقے میں پیدائش اور اُس سے وابستگی آہستہ آہستہ میرے لاشعور کا حصہ بنتی رہی [جس سے متاثر ہو کر مَیں نے پہلے پہل کچھ کہانیاں بھی لکھیں، جو قائم دین کے نام سے چھپیں اور بعد میں اُنھیں پینگوئن نے ترجمہ کر کے چھاپا، تو آپ میری ماہیتِ قلبی کا اندازہ کر سکیں گے۔
نولکھی کوٹھی ناول لکھنے کا آغاز میں نے ۲۰۱۳ میں کیا۔ اُس وقت مَیں اسلام آباد میں مقتدرہ قومی زبان میں کام کر رہا تھا۔ مَیں ایک دو ماہ بعد چھٹی پر اپنے گاؤں ۳۲ ٹو ایل اوکاڑہ جاتا تھا۔ میرا یہ گاؤں انگریز دور میں ماڈل ویلج تھا جس کے سڑکیں شیشم کے درختوں کی چھاؤں سے بھری رہتی تھیں۔ اِس گاؤں میں برٹش دور میں ہی ایک مڈل سکول تھا۔ سکول میں بورڈنگ ہاؤس تھا۔ سکول بہت بڑا تھا۔ اِس میں ہزاروں بڑے بڑے درخت شیشم اور پیپل اور نیم کے موجود تھے۔ پھر یہ ہوا کہ پورے گاؤں اور سکول کے نوے فی صد درخت میرے دیکھتے دیکھتے سکول انتظامیہ اور گائوں کے لوگوں نے کاٹ کھائے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ تعلیمی اداروں کے افسران اور ضلعی انتظامیہ کو اِس بات پر کوئی حیرت نہیں تھی، نہ اُنھیں اس سے غرض تھی کہ گاؤں اور سکول میں دُھول اڑنے لگی ہے۔ حتیٰ کہ سکول کی جنوبی دیوار کے ساتھ ایک بہت بڑا پیپل اور ایک سو کے قریب شیشم کے درخت کھڑے رہ گئے تھے۔ اِس پیپل کے نیچے ہم لڑکے بالے اکثر کھیلا کرتے تھے اور اُن سے بڑی مانوسیت تھی۔
ایک دفعہ مَیں اسلام آباد سے اپنے گاؤں گیا تو پتا چلا کہ سکول میں کچھ لوگ جمع ہوئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جنوبی دیوار کے ساتھ بچے کھچے کھڑے درخت کاٹنے کے لیے سکول کے ہیڈ ماسٹر اور کچھ گائوں کے لوگوں نے مل کر ٹمبر مافیا کو بلایا ہوا ہے۔ مَیں یہ اطلاع پاتے ہی سکول میں چلا گیا اور انتہائی مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ لڑنے مرنے کو تیار ہو گیا۔ میری مزاحمت کو دیکھتے ہوئے سکول انتظامیہ اور اہلِ قریہ نے وقتی طور پر درختوں کی کٹائی روک دی۔ مجھے معلوم تھا جیسے ہی مَیں اسلام آباد پہنچوں گا ، یہ لوگ اپنے کام کو انجام دیں گے۔ چنانچہ اسلام آباد جانے سے پہلے مَیں نے اوکاڑا ڈی سی آفس جا کر اُنھیں حالات سے آگاہ کیا اور محکمہ جنگلات کو خبردار کیا مگر اُنھیں اُس سے اتنی غرض تھی کہ اپنا ایک چپڑاسی بھیج دیا ۔ جس پر مَیں دوبارہ ڈی سی آفس آیا اور شدید احتجاج کیا ،۔ اب کے بار ڈی سی نے ایک مہربانی اور کی کہ ایک مجسٹریٹ کو سکول میں بھیج کر ہیڈ ماسٹر کو درخت کاٹنے سے روک دیا ۔ لیکن مَیں نے یہاں بس نہیں کی، اسلام آباد آ کر سیکرٹری انوائرمنٹ سے ڈی سی اوکاڑا کو فون کروایا ، اِس کے بعد اخبارو ںمیں کالم لکھے۔ جس کے بعد جنگلات کے عملے نے مداخلت کر کے سکول کے اُن بچے کھچے درختوں کوکٹنے سے بچایا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ پاکستان کے سرکاری ملازم فقط اپنے اور اپنے افسران بالا کے نجی کام کرنے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور اِسی کو اپنی اصل ڈیوٹی سمجھتے ہیں لہذا مَیں نے اُس وقت تک اُن کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جب تک اُنھوں نے درختوں کی کٹائی مستقل طور پر روک نہیں دی ۔ خیر وہ درخت تو بچ گئے لیکن اِس بات نے مجھے بہت سی چیزوں کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا۔
ایک تو یہ کہ خاص کر پاکستانی عوام نے کبھی اجتماعی پراپرٹی اور ترقی کو Own نہیں کیا۔ اِس ملک کی اجتماعی اشیا کو اپنے عارضی نجی فائدے پر قربان کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ جس کے ہاتھ میں جو شے آئی اُس نے پہلے اُسے ذاتی ملکیت میں تبدیل کیا پھر چند دِنوں میں برباد کر دیا اور جس شے پر ذاتی ملکیت حاصل نہیں کر سکا اُسے جان بوجھ کر تباہ کر دینے کی کوشش کی جیسے وہ اُس کے دشمن کی شے ہو ۔ آخر اِس کی کیا وجہ تھی؟
اِس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ پاکستان کے تمام شہری چھوٹے چھوٹے طبقات، مذاہب اور خطوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر برتری اور مخاصمت کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ دوئم پاکستان بننے کے بعد ایک نو دولتیوں کا گروہ وجود میں آیا جنھوں نے ہر لمحے دوبارہ مفلس ہونے کے خطرہ کو محسوس کیا اور اُس سے بچاؤ کے لیے اُن سے جو بن پایا، وہ کیا۔ یہ لوگ اُن کلرک پیشہ افراد کی اولادیں تھیں جو تقسیم کے وقت یعنی برٹش دور میں حکومت کو اپنی خدمات دے رہے تھے ۔ چنانچہ پاکستان بننے کے فوراً بعد یہ کلرکوں کی اولادیں افسر بن گئیں مگر اِن کے اندر رائے کی پختگی اور ارادے کی مضبوطی پیدا نہ ہو سکی۔چنانچہ اِنھوں نے برٹش دور کے پایہ تکمیل تک پہنچے ہوئے کاموں کو خستہ حال کر دیا، ادھورے کاموں کو بالکل ختم کر دیا اور ملک کو کسی نئے منصوبے سے روشناس نہ کیا ۔ بنی ہوئی چیزیں تباہ ہو گئیں اور نئی چیزیں بن نہ سکیں۔ نہریں جو انگریز سرکار نے بنائی تھیں وہ مٹی سے بھر گئیں ۔ نہروں کی پٹڑیاں ٹوٹ گئیں۔ درخت کٹ گئے۔ ریلوے کا بھُرکس نکل گیا۔ عمارتیں خستہ ہو کر گر گئیں مگر اُن کی مرمت اور دیکھ بھال نہ ہو سکیں۔ قوانین ذاتی تعلقات میں استعمال ہونے لگے ۔ تعلیم کاروبار بن گیا اور کاروبار فراڈ کا درجہ اختیار کر گیا ۔ حتیٰ کہ تقسیم کے دوران پیدا ہونے والا لا اینڈ آرڈر ہمیشہ کے لیے ہماری قسمت کا حصہ بن گیا ۔ ۲۰۱۱ میں میرے ہاتھ کچھ انگریز ڈپٹی کمشنروں کے گزٹ بھی لگے جنھیں پرانے ڈی سی آفسز کی سیاحت کے دوران متواتر مطالعہ سے گزارا۔ اُن کے کام کرنے کے طریقہ کو سمجھا اور پھر اپنی نئی بیوروکریسی کو نزدیک سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ہمارے والی بیوروکریسی محض ٹائی سوٹ پہنائے ہوئے بوزنے ہیں ۔مثبت عقل اور عمل اِن کے نزدیک سے ہو کر نہیں گزرا، اپنی ملازمت کو سہولت کار بنا کر نجی مفادات کا حصول ہی اِن کی نظر میں پبلک سروس ہے۔ چنانچہ ۲۰۱۲ کے آغازسے میرے ذہن میں ایک پلاٹ بننا شروع ہوا ۔ ایک سال تک مَیں اِس پلاٹ کو اپنے دماغ میں تریب دیتا رہا اور ۲۰۱۳ میں ناول لکھنا شروع کیا۔
یہاں ایک لطیفہ سنانا چاہوں گا ۔ مَیں نے جب یہ ناول جیسے ہی لکھنا شروع کیا تومیرے پاس نہ کمپیوٹر تھا اور نہ مجھے کمپوزنگ آتی تھی ۔ مَیں نے ناول کو ایک رجسٹر پر قلم سے لکھنا شروع کر دیا ۔ چونکہ اتنے بڑے منصوبے کے لیے کاغذ اور قلم سے لکھنا اِس لیے بھی کافی محنت طلب کام ہوتا ہے کہ ایڈیٹنگ میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے لہذا میرا خیال تھا کہ یہ کام تین سے چار سال میں مکمل ہو گا ۔ لیکن ہوا یہ کہ اچانک مجھے اسلام آباد میں کیپیٹل ٹی وی میں ایک جاب مل گئی ۔ میرا کام رات نو بجے کی خبریں بنانا اور ٹِکر تیار کرنا تھا ۔ چنانچہ ایک تو اُنھوں نے مجھے ایک کمپیوٹر دے دیا اور دو ہفتے میں کمپوزنگ بھی سکھا دی ۔ مَیں دفتر کا یہ کام دو گھنٹے میں ختم کر لیتا اور اُس کے بعد مسلسل پانچ گھنٹے اپنے ناول پر کام کرتا ۔ ناول کا تمام concept کواضح تھا لہذا ایڈیٹنگ سمیت فقط نوماہ کام چلا ، جتنا کہ ایک ماں کے بچہ پیدا کرنے کا دورانیہ ہوتا ہے ۔ جب مَیں نے اِس ناول کی آخری لائن لکھی اُسی دن ٹیلی ویژن والوں سے جھگڑا ہو گیا اور مَیں نے استعفیٰ دے دیا ۔ یوں سمجھیں قدرت نے مجھے یہ ناول لکھنے کی ایک باقاعدہ جگہ ، کمپیوٹر ،اور تنخواہ مہیا کی اور مجھ سے یہ کام لیا اور جیسے ہی کام ختم ہوا ، یہ تینوں چیزیں وآپس لے لیں۔
۲۰۱۴ میں سانجھ پبلشر سے ناول چھپ گیا اور شائع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا ۔ اس قدر تیزی سے اِس کا چرچا ہوا کہ ایک سال میں تین ایڈیشن نکل گئے ، انگریزی اردو اخباروں ارو روز ناموں میں مضامین شائع ہونے لگے۔ اب یہاں ایک اور قصہ ہوا ۔ ناول کی شہرت اُن لوگوں تک بھی پہنچی جن کے قبضے میں نولکھی کوٹھی کی عمارت اور زمین تھی ۔ یہ کوٹھی پہلے ایک آدمی پیر شمس الحسن کے پاس لیز پر تھی ، لیز کا وقت پورا ہونے کے بعد ایک برگیڈئر صاحب کو الاٹ ہو گئی ۔ جبکہ پیر صاحب اُس کا قبضہ نہیں چھوڑ رہے تھے ۔ ناول کی شہرت کے بعد نولکھی کوٹھی پر بھی عوام وخواص کی توجہ ہو گئی اور لوگ اُسے دیکھنے کے لیے جانے لگے ۔ اِس پر شمس الحسن صاحب کے بھی کان کھڑے ہو گئے ۔ اُسے محسوس ہوا کہ اب کوٹھی پر اُس کا قبضہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا لہذا اُس نے کوٹھی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور جاتے جاتے ظالم نے یہ کیا کہ کوٹھی کا تمام سازو سامان نکال لے گیا ، حتیٰ دروازے کھڑکیاں تمام فرنیچر اور چھتوں کےت آنکڑے اور شہتیر بھی اُتار کر چلتا بنا ۔ گویا اُس نے کوٹھی کو ایک کھنڈر بنا کر برگیڈئیر صاحب کے حوالے کر دیا۔ اِدھر برگیڈئیر صاحب نے بھی یہ کیا کہ اُسے آباد کرنے کی بجائے بقیہ سامان پر ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیے اور چند مہینوں میں ہی کوٹھی باقاعدہ ایک بھولا بسرا نشان رہ گئی۔ کوٹھی کے ارد گرد کے باغات کاٹ دیے گئے ۔اور کوئی شے نہ رہ گئی سوائے گری بڑی دیواروں اور بوسیدہ انیٹوں کے۔ مختلف لوگوں نے ضلعی انتظامیہ کو توجہ دلانے کی کوشش کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ آج جو لوگ بھی اِسے دیکھنے جاتے ہیں وہ چار آنسو بہا کر لوٹ آتے ہیں ۔ رہے نام اللّٰہ کا، ہاں مگر ناول بک کارنر جہلم مسلسل چھاپ رہا ہے، احباب ناول پڑھنا چاہیں تو وہیں سے منگوائیں۔