fbpx
اُردو ادباُردو نثرنثر پارہ

ضرورت، جون ایلیا کا انشائیہ

جون ایلیا

ہم صبح سویرے اُٹھتے ہیں، پھر اپنے دفتروں، اپنے کارخانوں اور اپنی روزی کے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ مگر ہم صبح سویرے کیوں اُٹھتے ہیں۔ کیا یہ اُٹھنے کا وقت ہے؟

ہاں! میں نے اپنے آپ سے دُرست سوال کیا۔ یہ اٹھنے کا وقت نہیں ہے، مگر ہم پھر بھی اُٹھتے ہیں۔ ہم اپنی ضرورت اور احتیاج کی وجہ سے اُٹھتے ہیںَ

یہ ہماری مجبوری بھی ہے اور مختاری بھی کہ ہم جاڑوں میں اپنے گرم بستروں اور گرمیوں میں اپنے سرد بستروں سے اُٹھیں، منہ پر چھپکا ماریں، ناشتا کریں اور اپنی احتیاج کی خاطر گھر سے نکل جائیں۔

اب سے لاکھوں برس پہلے بھی انسان کا یہی معمول رہا ہے۔ یہاں مجھے یوں ہی ارسطو یاد آرہا ہے۔ ارسطو نے انسان کی یہ تعریف کی تھی کہ انسان ایک ایسا جانور ہے جو دو پیروں پر چلتا ہو اور اس کا قامت سیدھا ہو۔

میرے اور تمھارے خیال میں یہ تعریف انسان کی کوئی غلط تعریف تو نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دو پیروں پر چلتے ہیں اور ہمارا قامت سیدھا ہے۔ مگر یونان کے ایک حکیم نے اس سیدھی، سادی اور سچی تعریف کو بھی نہیں بخشا اور اس کا مذاق اُڑایا ۔ وہ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن ارسطو اپنی مجلس میں بیٹھا ہوا اپنے شاگردوں سے بُو دو نبود کے مسئلے پر گفت گو کررہا تھا کہ اتنے میں ایک ننگ دھڑنگ آدمی جس کے لمبے اور اُلجھے ہوئے بال اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے، مجلس میں داخل ہوا۔

ارسطو کی آنکھوں نے اور اس کی آنکھوں ہی نے نہیں، پورے وجود نے آنے والے اس عجیب و غریب آدمی کی پزیرائی کی۔ آنے والا تھا بھی ایسا جس کی ارسطو اپنے پورے وجود کے ساتھ پزیرائی کرتا۔

میرے ادیب دوست اور بھائی معراج رسول، اور میرے قبیلے کے صاحبِ حال شاعر میاں جمال احسانی ، وہ تمھارا بہت محبوب اور محترم قلندر تھا۔ تمھارے دل اور دانش کا قلندر۔ اور ہم تینوں کے حرفوں کو پڑھنے والے دوستوں، دانش وروں اور دانش یاروں کا بہت محبوب اور محترم قلندر۔ اور میں اور تم جانتے ہیں کہ اس کا نام دیو جانس کلبی تھا۔

وہ ارسطو کی مجلس میں وارد ہوا اور حال یہ تھا کہ اس کی بغل میں ایک مرغا تھا۔ وہ مجلس میں وارد ہونے کے بعد چند لمحوں کے لیے ٹھہرا اور اس نے دائیں ہاتھ سے مرغے کی دونوں ٹانگیں پکڑیں اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور اس کے برابر والی اُنگلی سے اس کی چونچ کو پیچھے کی طرف کھینچا اور اسے زمین پر دو پایہ جان دار کی طرح کھڑا کردیا اور کہنے لگا ۔۔۔۔ "ارسطو کا انسان۔”

کوئی شبہ نہیں کہ ارسطو نے انسان کی جو تعریف کی ہے، اس تعریف کی رُو سے ، دیوجانس کلبی کا مرغا، ان چند لمحوں کے دوران انسان کی تعریف پر پورا اُترتا تھا۔ اور اس بات میں انسانوں کو جھنیپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اور احتیاج کے معاملے میں مرغا اور انسان دونوں ایک ہیں۔

ہاں! ہم سب انسان، جانور، پیڑ، پودے، پھلواریاں اور جھاڑ جھنکاڑ۔ ہم سب کے سب ضرورت اور احتیاج کے مارے ہوئے ہیں۔ میں، تم ، میرے دوست اور دشمن، جانور، پودے، ان کی ٹہنیاں ، پتّے ، پھول اور ان کے کانٹے سب کے سب ضرورت اور احتیاج کے مارے ہوئے ہیں۔

میں اور تم اسی وقت گُنگناتے ہیں جب پکا ہوا یا اُبلا ہوا اناج ہمارے معدوں میں پہنچ گیا ہو۔ جانور اسی وقت اپنی اپنی بولیاں بلوتے ہیں، جب ان کا پوٹا تر ہو۔ اور  پیڑ پودے، پھلواریاں، جھاڑ جھنکاڑ اور گھاس پھوس اسی وقت لہرائیں گے جب ان کی جڑوں تک پانی پہنچ گیا ہو۔

زمین کا سارا کھیل، زندگی کا کھیل ہے۔ اور زندگی کا سارا کھیل، دانے اور پانی کا کھیل ہے۔ میں، تم اور ہم سب اور ہمارے سب سے چوکھے رنگ اور ہمیں سب سے زیادہ پسند آنے والی خوش بوئیں، معدوں اور جڑوں سے زندہ ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو مجھے اپنا ایسا کوئی دانش مند دکھادو، کوئی ولیؔ دکنی، میرؔ، غالبؔ، شاہ لطیفؔ، وارث ؔ شاہ، میر انیسؔ، بلھےؔ شاہ اور خوش حال خاں خٹک۔۔۔۔ جس نے ہوائیں پھانکی ہوں اور ہوائیں پی ہوں  اور انسانوں کی بہترین دانش کو گُنگنایا ہو۔

میں جانوروں ، پیڑوں ، پودوں، پھولوں اور سمندروں میں زندگی کا لہراؤ پانے والی دوسری چیزوں کے نام گِنانا چاہتا ہوں، گِناتا ہوں اور نہیں گِنا پاتا۔ مگر یہ ضرور جاننا چاہتا ہوں کہ ہر وہ چیز جس کے بارے میں، میں اور تم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہے۔۔۔۔۔ کیا ایسا ہے کہ وہ بس ہوا اور پانی کے نام پر زندہ ہے؟

سارا مسئلہ پیٹ کا ہے اگر پیٹ خالی ہے تو نہ فن کے کوئی معنی ہیں اور نہ فکر کے۔ جس چیز نے انسانوں کی زندگی کو اس کے لیے سزا بنا دیا ہے، وہ ضروریات ہے جو پوری نہیں ہوتی۔ ہم سب کو ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں زندگی ایک سزا محسوس نہ ہو۔

 

(سسپنس ڈائجسٹ ، فروری 1990ء)

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے