سلویا پلاتھ (Sylvia Plath) کے سوانحی ناول The Bell Jar کا اردو ترجمہ بعنوان "کانچ کا زندان” ، ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی نے کیا ہے۔ جو اِس ماہ (نومبر 2022ء) میں پاکستان میں شایع ہوا۔ ذیل میں ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی کا لکھا کتاب اور مصنفہ کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
سلویا پلاتھ اور کانچ کا زندان
سلویا پلاتھ (پیدائش : ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۲ء امریکہ – وفات : ۱۱ فروری ۱۹۶۳ء برطانیہ) امریکی شاعرہ ، ناول نگار ، افسانہ نگار انگریزی ادب میں اقراری شاعری کے فروغ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ اقراری شاعری دراصل امریکہ میں ۱۹۵۰ میں ابھرنے والی شاعری کی مابعد جدیدیت کی ایک قسم ہے۔ یہ دراصل ذاتیات یا ” میں”کو انفرادی تجربات کے شدید لمحات ، بشمول گذشتہ یا کبھی کبھار واقع ہونے والے واقعات جو اکثر وسیع تر سماجی موضوعات پر مرتکز ہوتے ہیں اور بالآخر نفسیاتی کشمکش ، ذہنی اذیت ، جنسیات اور خودکشی کی صورت میں ظہور پذیر ہو تے ہیں۔
۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰ کے دوران رابرٹ لوویل(Robert Lowell) ، سلویا پلاتھ ( Sylvia Plath) ، جان بیری مین (John Berryman)، اینی سیکسٹان (Anne Saxton) جیسے شعرا نے اس کی نمائندگی کی۔
سلویا پلاتھ کا لکھا واحد ناول ” کانچ کا زندان” (The Bell Jar) جگہوں اور کرداروں کے ناموں کی تبدیلی کے ساتھ ایک نیم سوانحی داستان ہے ، جو ۱۹۶۳ میں “Victoria Lucas” کے فرضی نام سے شائع ہوا۔ متحدہ سلطنت برطانیہ (UK) میں ناول کی اشاعت کے ایک ماہ بعد ہی سلویا پلاتھ نے خودکشی کرلی۔ ۱۹۶۷ میں ناول سلویا پلاتھ کے اصلی نام کے ساتھ پہلی مرتبہ منظرعام پر آیا اور ریاستہاۓ متحدہ امریکہ ( USA) میں ۱۹۷۱ میں۔ تقریباً بارہ سے زیادہ زبانوں میں اس ناول کا ترجمہ ہو چکا ہے۔کورین ، ولندیذی(Dutch)، کروشیا (Croatian) ، سربیائی (Serbian ) ، سلافی (Slovakian) ، نارویجین (Norwegian) ، فرانسیسی (French) ، جرمن (German) ، عبرانی (Hebrew) ، ہنگری (Hungarian) ، اطالوی (Italian) ، سویڈن (Swedish) ، ہسپانوی (Spanish) ، قیطلونی (Catalan) ، ترکی (Turkish) ، جاپانی (Japanese) ، مقدونی (Macedonian) ، استونیائی (Estonian) ، سلووینیائی (Slovenian) ، یہاں تک کہ اس کا ایک ایڈیشن بریلBraille میں بھی موجود ہے۔ویسے اردو زبان میں The Bell Jar کا یہ پہلا ترجمہ ہے۔
ناول کی ابتدا جس مکالمہ سے ہوتی ہے ،” وہ ایک عجیب تپش بھرا سخت موسم گرما تھا ، وہ موسم گرما جس میں روزنبرگز کو بجلی سے ہلاک کردیا گیا تھا ،” اس کا تعلق جولیس اور ایتھل روزنبرگ سے ہے جنھیں سووئیٹ یونین کے لیے جاسوسی کرنے پر جرم عائد کرتے ہوے بجلی کے ذریعہ موت کی سزا دی گئی تھی۔یہ ایک اشارہ تھا سرد جنگ اور ملازمتوں سے برطرف کرنے کے ماحول کی طرف جو بالواسطہ ایستھر کے تجربات اور اس دہے کے مالیخولیا، دماغی خلل اور غداری و دھوکہ دہی کے ماحول میں گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک کالج جانے والی طالبہ کو جو شاعرہ بننے کی خواہش رکھتی تھی ، “ لیڈیز ڈے “ رسالہ کی مہمان مدیر کے طور پر ایک مہینہ کی تربیت کے لیے نیویارک بھجوادیا جاتاجاتا ہے ۔ لیکن وہاں اس کا سارا وقت خود کی شناخت اور معاشرتی معیارات کے درمیان جد وجہد کرتے ہوے گذر جاتا ہے۔اس کی دو ساتھی لڑکیاں نسوانیت کے بارے میں مختلف نظریات رکھتی ہیں۔باغی اور سرکش اور جنسی عمل پر یقین رکھنے والی ڈورین ، اور کنواری ، زندگی سے بھرپور ،مکمل شخصیت کی مالک بیٹسی ، دونوں نسوانیت کے متعلق دو متضاد نظریات کو پیش کرتی ہیں ایستھر کے اندرونی تنازعات کے ساتھ۔ بڈی ولارڈ ، جس کے بارے میں ایستھر مثبت انداز میں سوچتی ہے ، آگے چل کر ایک منافق ثابت ہوتا ہے۔تحریر و تصنیف کے کورس میں داخلہ نہ ملنے کی صورت میں اسے گرما کا سارا وقت اپنی ماں کے ساتھ گذارنا تھا۔اس کے والد کی موت اس کے بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔ناول لکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ناکام ہونے پر تیزی سے مایوسی کی طرف بڑھتے ہوے شدید مایوسی کا شکار ہو کر کئی بار خودکشی کی کوشش کرنے کے باوجود زندہ رہتی ہے۔
ایستھر کو ذہنی مریضوں کے ادارے میں داخل کروا دیا جاتا ہے جہاں ایک ترقی پسند ماہر نفسیات نے رحم بند (diaphragm) کے استعمال کا مشورہ دے کر اس کے شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے قائم ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خدشات کو کم کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ برقی جھٹکوں کے علاج سے بھی گذرتی ہے جس کے بعد وہ خود کو اس کانچ کے زندان سے آزاد محسوس کرتی ہے۔ واپسی پر اس کی عصمت کا کھو جانا ، اس کی زندگی میں میل کا پتھر ثابت ہوتا ہے۔
ایستھر کے ناقابل ضبط خون کے بہاؤ کے وقت وہ دوسری مریضہ جون(Joan) کی مدد سے ہسپتال پہنچتی ہے ، لیکن اس کے فوری بعد جون کی خودکشی نے ایستھر کے خودکشی والے خیالات کو کچل دیا۔اور ناول کا اختتام ایستھر کی نئی زندگی کی ابتدا کو پیش کرتا ہے ، جب ایستھر میڈیکل بورڈ کا سامنا کرتی ہے یہ طئے کرنے کے لیے کہ کیا وہ گھر واپس جاسکتی ہے۔
The Bell Jar ایک ایسی عورت کی کہانی کو پیش کرتا ہے جہاں اس کی زندگی عام حالات میں معمول کے مطابق فطری انداز میں آگے بڑھنے کہ پاگل پن کی طرف چلی جاتی ہے۔ایستھر ، معاشرہ کے بتائے ہوئے تجربات سے گذرنے کے اصولوں اور اس کے ذاتی تجربات میں خلا پاتی ہے ، اور یہی خلا اس کی ذہنی اذیت میں شدت پیدا کردیتا ہے۔اس کی زندگی کے تجربات مثبت انداز میں زندگی میں تبدیلی لانے کی بجائے اسے پریشان کرتے ہوئے ، الٹ کر رکھ دیتے ہیں اور وہ ایک ماحول ناشناس میں گھر کر رہ جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ زندگی کے معنی تلاش کرے ، وہ موت کے راستے تلاش کرتی ہے۔اپنی خودکشی کی مختلف کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ صرف زندہ رہنے کی خواہش کرتی ہے۔
کانچ کا زندان ( The Bell Jar) ، جو ناول کا عنوان بھی ہے ، انسان کی ذہنی اذیت کو ظاہر کرتا ہے جو وہ اپنے دماغی ہیجان (nervous breakdown) کے دوران محسوس کرتی ہے۔ کانچ کا فانوس مرکزی کردار قید اور کسی کے دام میں پھنسنے کے احساسات کی نمائندگی کرتاہے۔ وہ جہاں کہیں بھی ہو ، جو کچھ بھی کررہی ہو ، خود کو ایک اجنبی کی طرح ، “ اسی کانچ کے فانوس میں گوشت کے شوربہ میں ڈوبی بدبودار ہوا کے ساتھ…” بند پاتی ہے۔ اگر چہ کہ وہ شفاف کانچ سے باہر دیکھ تو سکتی ہے لیکن صرف اس دنیا کے بگڑے ہوے عکس کو ، ایک تکلیف میں مبتلا ناظر کو ڈھکی ہوئی حقیقت سے متعارف کرواتے ہوے۔البتہ برقی جھٹکوں کے علاج سے گذر کر ایستھر محسوس کرتی ہے کہ فانوس اٹھ چکا تھا۔ پھر بھی ، صحت یاب ہوجانے کے بعد بھی اسے خوف ھیکہ وہ شائد دوبارہ فانوس میں بند کردی جاے ، اور کوئی تعجب نہیں کہ کئی فانوس اس کے اطراف دکھائی دینے والے صحیح الحواس لوگوں کو بھی قید کر لیں۔
ویسے تو سلویا پلاتھ کی ساری تصنیفات اس کی شخصیت سے جدا نہیں ہیں ، لیکن جہاں تک The Bell Jar کا تعلق ہے ، ناول کی ہیروئین اور سلویا پلاتھ کی زندگیوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ایستھر گرین ووڈ اور سلویا پلاتھ دونوں ہی تحریر اور تصنیف کے کورس میں داخلہ کی درخواست کو مسترد کردیے جانے پر گہرے ذہنی دباؤ سے گزرتی ہیں۔ سلویا پلاتھ نے اکثر اس بات کا اظہار کیا ھیکہ کیسے وہ اپنی شناخت ایک مصنف کے طور پر اور ایک بیوی اور ماں کی حیثیت میں قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ علی الصبح لکھنے کے لیے بیٹھتی ہے ، اور بچوں کے جاگ جانے پر اسے اپنا کام روک دینا پڑتا ہے۔ یہ ایک عام خیال ہوتا ہے کہ عورت کو اپنی تعلیمی اور ذاتی دلچسپیوں کو خیرآباد کہہ دینا چاہیے جب وہ ماں بن جاتی ہے۔وہ بہت سارے انجیروں کو ایکساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے جبکہ سماج اسے ایک سے زیادہ انجیر رکھنے کی اجازت نہیں دیتا چاہے باقی سارے انجیر خراب ہو کر گرجائیں اور فنا ہوجائیں۔
اس وقت کے معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ سلویا پلاتھ خود کی دماغی حالت کےساتھ بھی جدوجہد کرتی رہی جو ۱۹۶۳ میں اس کی خودکشی کی صورت میں اختتام کو پہنچتی ہے۔ جبکہ ایستھر سائینسی تجسس اور معاشرتی توقعات کے درمیان سکڑ کر خود کو کانچ کے فانوس میں قید محسوس کرتی ہے۔
تیس سال کی عمر میں سلویا پلاتھ اپنی زندگی کو ختم کرلیتی ہے ، جبکہ ایستھر اس کے پرامید عکس کو پیش کرتی ہے جو میڈیکل بورڈ کا سامنا کرتی ہے وہاں سے آزاد ہونے کے لیے۔
کتاب: کانچ کا زندان (The Bell Jar)
مصنفہ: سلویا پلاتھ (Sylvia Plath)
اردو ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی
پہلی اشاعت : نومبر 2022ء
ناشر : سٹی بک پوائنٹ، اردو بازار، کراچی