"مارکیز کی نانی کا خاندان جھلستی ریت کے جزیرے سے تعلق رکھتا تھا، جو مقامی انڈین باشندوں ، سمگلروں اور ساحروں کا مسکن تھا، مارکیز کی نانی غیر معمولی چیزوں کے بارے میں یوں بات کرنے کی عادی تھیں، جیسے وہ روزمرّہ کی باتیں ہوں۔”
"مارکیز اپنی نانی کے بیانیہ انداز سے بے حد متاثر تھا، ان کا پورا گھر جنوں، بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں سے بھرپور تھا، بعد میں مارکیز نے اسی انداز بیاں کو اپنایا، جس نے اس کے ناول "تنہائی کے سو سال” کو شہرہ آفاق بنایا۔”
"مارکیز کے نانا ایک شاندار قصہ گو تھے۔ وہ مارکیز کو ڈکشنری پڑھاتے اور سرکس دکھانے لے جاتے۔ وہ اکثر اپنے ننھے نواسے سے کہتے:
"تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ مرا ہوا آدمی کتنا بھاری ہوتا ہے۔”
نانا کی وفات سے اس نے اس ویرانی کو دریافت کیا جو کسی اپنے کے فنا ہو جانے کے بعد باقی رہ جاتی ہے۔”
"مارکیز کی خالائیں تخیل پرست عورتیں تھیں۔ اس کی ایک خالہ فرانسکا ایک مضبوط اور نہ تھکنے والی عورت تھی، وہ ایک روز اپنا کفن بننے بیٹھ گئی، جب کفن مکمل ہوا تو اپنے بستر پر لیٹی اور مر گئی۔”
سیکنڈری سکول کے بعد، یونیورسٹی سے قانون پڑھنے کے دوران اس نے ایک ادبی راہ دریافت کی، جہاں اس کی ملاقات کولمبیا کے شاعروں پابلو نرودا، روبن داریو اور حوان رامون وغیرہ سے ہوئی، جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اگر میری ملاقات ان سے نہ ہوئی ہوتی تو آج شاید میں ادیب نہ ہوتا۔ ”
"اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے اس کی دوستی کئی طاقتور حکمرانوں سے بھی رہی، جس میں کیوبا کا سابق صدر فیڈل کاسترو بھی شامل ہے۔ اپنی باغیانہ تحریروں کے باعث ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس کے داخلے پر پابندی تھی، جب بل کلنٹن صدر بنا تو اس نے یہ پابندی اٹھائی اور مارکیز کے ‘تنہائی کے سو سال’ کو اپنا پسندیدہ ناول قرار دیا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم خالد فیاض صاحب کے توسط سے موصول ہونے والی، لاطینی امریکہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب گابرئیل گارشیا مارکیز کے فکر و فن پر، محترمہ عذرا یاسمین صاحبہ کی مختصر مگر مدلل کتاب "گابرئیل گارشیا مارکیز اردو دنیا میں” سے چند منتخب اقتباسات۔
خالد فیاض صاحب اور عذرا یاسمین صاحبہ کے شکریے کے ساتھ۔
یہ کتاب عبد الجبار صاحب نے اپنے ادارے بکس اینڈ ریڈرز ملتان سے شائع کی ہے۔