مشہور انگریزی کہاوت کے مطابق کتاب کو اس کے سرورق سے نہیں جانچنا چاہیئے۔ ایک اور کہاوت کی رو سے پہلا تاثر ہی آخری ہوتا ہے۔
"فرزین نامہ” کا سرورق جتنا جاذب نظر ہے کتاب میں شامل تحریریں بھی اتنی ہی عمدہ ہیں۔شکیل طلعت کے بنائے ہوئے سرورق میں ایک بیٹی کچن میں کچھ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے اور ساتھ ہی کان پر موبائل لگائے اپنی والدہ سے پوچھ بھی رہی ہے۔ والدہ بھی ساتھ تصویر میں نظر آرہی ہیں جن کی آنکھوں میں تھوڑا سا غصہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس انیمیٹڈ ٹائٹل کی تعریف کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے کتاب کے بارے میں جو تاثر ابھرتا ہے وہ پہلے چند لمحوں ہی میں قاری کو جہاں ایک طرف اپنی گرفت میں لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں اسے اس کتاب کے مندرجات کے بارے میں بھی کافی کچھ بتا دیتا ہے۔لہذا اس کتاب کو سر ورق سے بجا طور پر جانچا جا سکتا ہے اور یوں اوپر بیان کی گئی پہلی کہاوت کو رد کیا جا سکتا ہے کہ فرزین نامہ کا سرورق قاری کو کتاب کی طرف مائل کرتا ہے اور کتاب کا تعارف بھی کرا دیتا ہے۔ اس کے برعکس اوپر بیان کی گئی دوسری کہاوت کو اس بنیاد پر قبول کیا جا سکتا ہے کہ سرورق دیکھنے سے جو کتاب میں دل چسپی کا ایک تاثر ابھرتا ہے وہی خوش گوار کیفیت کتاب کے آخری صفحے تک قائم رہتی ہے۔
فرزین لہرا مختلف رسائل و جرائد میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے گزشتہ کچھ عرصے سے لکھ رہی ہیں اور ان کی ہلکی پھلکی مزاحیہ اور سنجیدہ تحریروں کو پڑھنے اور پسند کرنے والوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔فرزین ایک وائس اوور آرٹسٹ بھی ہیں اور ان کا نظم و نثر کا مطالعہ بھی خوب ہے کہ یہ ان کا اولیں شوق رہا ہے۔ "فرزین نامہ” میں فرزین کی 27 تحریروں کو یکجا کر کے کتابی صورت میں حال ہی شائع کیا گیا ہے اور یہ ان کی پہلی کتاب ہے۔
زندگی غم و خوشی کے ملے جلے تجربات سے عبارت ہے۔ ان تجربات سے گزرنے والے لوگ اپنے فکری رجحان، نیچر اور نرچر کے مطابق ان واقعات سے سبق اخذ کرتے ہیں یا پھر لوگوں کی اکثریت ایسا کچھ کیے بنا ہی صرف حیوانی سطح پر زندگی صرف گزار کر چلی جاتی ہے۔ ایک لکھاری کا البتہ یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زندگی کے تجربات سے خود گزرتا ہے بلکہ وہ اس فن کی بدولت، جو اسے عطا ہوا ہوتا ہے، ان تجربات کو ضبط تحریر میں لا کر نہ صرف امر کر دیتا ہے
بلکہ وہی لمحہ جو اس نے اکیلے جیا ہوتا ہے اس میں دوسروں کو بھی شامل کر لیتا ہے اور یوں قاری جب ایسی کسی تحریر، چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں، کو پڑھ کر اسے خود سے ریلیٹ کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے گویا اس کی ترجمانی کر دی۔ یوں قاری کا لکھنے والے سے ایک رشتہ جنم لیتا ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ سب تو اس نے بھی محسوس کیا اور اس کے بھی وہی جذبات تھے جو اس لکھاری نے تحریر کیے۔ یہی درحقیقت وہ لمحہ ہوتا ہے جب قاری اس لکھاری کو اپنے پسندیدہ لکھنے والوں کی فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔
فرزین نے اس کتاب میں اپنی زندگی کے "کھٹے میٹھے تجربات” اپنی تحریروں کے ذریعے پیش کیے ہیں۔ ان کی تحریر کا انداز (کہیں ہلکا پھلکا کہیں ذرا سنجیدہ) قاری کو پہلی سطر سے ہی اپنی جانب متوجہ کرنے کی خوبی کا حامل ہے۔ زبان رواں، سلیس اور دل کش ہے۔ کہیں کسی گانے کے بول، سوشل میڈیا کے جدید ٹرمز اور کہیں کہانی کے کرداروں کا آپس میں مکالمہ اتنا بے ساختہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا اس میں کھو جاتا ہے۔
اچھے مزاح نگار کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ وہ کسی سنجیدہ بات یا واقعہ میں بھی مزاح کا کوئی پہلو نکال لیتا ہے۔ فرزین کو پڑھتے ہوئے آپ کو بار ہا اس بات کا خیال آتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی تحریر "ایکسپو سینٹر” میں جب مرکزی کردار بک فیئر میں کتاب خریدنے کے بعد قطار میں لگ کر کاونٹر تک پہنچتی ہے اور عین پیمنٹ کے وقت ان کے بیگ میں والٹ ہی موجود نہیں ہوتا اور کیشئر سے مختصر مکالمہ ہوتا ہے تو پڑھنے والا ایک لطیف سے مزاح کو محسوس کرتا ہے۔ اگر اسی واقعے کو سنجیدگی کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایک سنجیدہ تحریر کا تاثر ابھرے کہ بظاہر اس واقعہ میں مزاح کا پہلو نہیں نظر آتا تاہم کسی معمول کے سنجیدہ سے واقعہ کو ایک عمدہ مزاحیہ رنگ میں پیش کرنا فرزین کا خاصہ ہے۔
اس کتاب میں شامل تحریروں میں آپ کو ایسے واقعات و مشاہدات ملیں گے جو آپ اپنے ارد گرد بارہا دیکھتے ہیں اور اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں گویا ان میں آپ کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہوتی اس موقع پر سیف الدین سیف کا معروف مقطع ذہن میں آ رہا ہے کہ:
سیف انداز_بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
فرزین انہی واقعات، جنھیں آپ معمولی سمجھ کر گزر جاتے ہیں، سے اپنی تحریر کا خمیر اٹھاتی ہیں اور ایک معمولی سی بات کو خاص بنا کر پیش کرکے اپنے عمدہ لکھنے کے ہنر کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔یعنی وہ واقعی اپنے انداز بیاں سے ایک پرانی یا عام سی بات کو نیا اور خاص بنا دیتی ہیں اور اس انداز سے پیش کرتی ہیں کہ قاری خود کو اس کہانی یا واقعہ کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں فرزین کی منتخب تحریریں شامل کی گئی ہیں جن میں گولڈ میڈلسٹ، خط بنام امی اور جوابی خط، ماسی نامہ، فیس بکی محبت، ست رنگی محبت، کورونا میں اور سرتاج، ایکسپو سنٹر، ایاز سٹور نامی تحریریں بالخصوص زیادہ دل چسپ ہیں۔ دیگر تمام تحریریں بھی فرزین کے عمدہ مشاہدے اور اعلی انداز بیان کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔
عمدہ اور عام فہم مزاح پڑھنے کا ذوق رکھنے والوں کی لائبریری میں یہ کتاب بلا شبہ ایک خوب صورت اضافہ ثابت ہوگی۔ اس موقع پر میں فرزین لہرا کو اس شاندار کتاب کی اشاعت پر دعا دیتا ہوں کہ اللہ انہیں مزید کامیابیوں سے سرفراز کرے۔ آمین