خواب کا چہرہ نہیں ہوتا
نصیر احمد ناصر
خواب کا چہرہ نہیں ہوتا
فقط آنکھیں ہی ہوتی ہیں
مگر آنکھوں میں چہروں کی عجب اک بھیڑ ہوتی ہے
کہ جس میں خواب رستہ بھول جاتے ہیں
کرب سمجھوتوں کا
اندر کے سہانے موسموں کو زرد کرتا ہے،
بجھا دیتا ہے جذبوں کے الاؤ ،
خوبصورت منظروں پر
برف زاروں کی اداسی تھوپ دیتا ہے
ہوا کا عکس اُتھلے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے
روح کا آزار
جسموں کی شناسا تختیوں پر
اجنبیت کی لکیریں کھینچ دیتا ہے
لبوں پر مسکراہٹ پینٹ کرنے سے
دکھوں کا ذائقہ شیریں نہیں ہوتا
درد کے ساحل پہ بیٹھے
عمر بھر کیا ریت سے ڈرتے رہو گے؟
ریت کی مٹھی
سمندر پاٹ سکتی ہے
نہ آنکھوں میں چمکتے پانیوں کو جذب کرتی ہے
جانتے ہو؟
نیند میں چلتے ہوئے جاگا نہیں کرتے!
Follow Us