عالمی یوم نسواںاور خواتین کے مسائل/ جویریہ اعجاز۔۔۔۔ہست و بود

پاکستانی خواتین کو اگر تین گروہوں میں تقسیم کر کے جائزہ لیا جائے تو پہلا گروہ باشعور اور مراعات یافتہ خواتین کا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، مالی طور پر مستحکم اور اپنے قانونی و معاشرتی حقوق سے آگاہ ہیں اس حلقے کی خواتین کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ انہیں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔ مگر نور مقدم اور سارہ انعام جیسے کیسز نے یہ ثابت کیا کہ معاشرتی حیثیت یا معاشی استحکام خواتین کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔
دوسرے نمبر پر پڑھی لکھی باشعور مگر محدود وسائل کی حامل خواتین ہیں یہ طبقہ پیچیدہ سماجی، ثقافتی اور فکری ارتقا کے سفر میں روایت اور جدیدیت کے درمیان معلق ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کے باعث معاشی ذمہ داریوں میں خواتین شراکت دار ی ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔دوسری جانب روایتی سماجی ڈھانچہ عورت کے اس کردار کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اگر خواتین گھریلو زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے اور ان معاشی حالت بھی مستحکم ہے تو اس انتخاب کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے لیکن اگر کوئی عورت کام کرنا چاہتی ہے، تو اسے ایک محفوظ، مساوی، اور معاون ماحول فراہم کرنا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عزت و تکریم اور امن و سلامتی ہر عورت کی یکساں ضرورت ہے پھر چاہے وہ اپنے گھر کی دیکھ بھال کر رہی ہو یا کسی دفتر میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہی ہو۔ گھریلو خواتین بھی دباؤ، تشدد اور نفسیاتی استحصال کا شکار ہوتی ہیں،مگر بسا اوقات ان کے مسائل کو ذاتی معاملات کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ثانیہ زہرا کیس اس طرح کے کئی واقعات اس حقیقت کی تلخ یاد دہانی ہے کہ محض تعلیم اور ظاہری بہتر حالات عورت کے تحفظ کی ضمانت نہیں بن سکتی۔
اس کے بعد تعلیم، شعور اور اختیار کی سرحدوں سے کوسوں دور کھڑی بے بس خواتین ہیں جنہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ ان کے لیے بھی کوئی حق نامی شے وجود رکھتی ہے۔ خواتین کا عالمی دن آئے جائے عملی زندگی میں ان کے لیے کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ وہ عالمی یوم خواتین اور حقوق نسواں کے مفہوم سے بھی بالکل انجان ہیں۔ ہر سال عالمی یومِ خواتین کے لیے ایک مخصوص تھیم مقرر کیا جاتا ہے۔ جو خواتین کے حقوق سے متعلق موجودہ مسائل اور ترجیحات کو اجاگر کرتا ہے ‘‘Accelerate Action’’ یعنی عمل کی رفتار تیز کریں عالمی یومِ خواتین 2025 کا مرکزی خیال ہے۔ یہ تھیم خواتین کے لیے فوری عملی اقدامات جیسے پالیسی سازی، قانون سازی اور ان کے اطلاق پر زور دیتا ہے۔
پوری دنیا اور پاکستان میں اپنے بے تحاشا مسائل کے باوجود خواتین سیاست، معیشت، ادب اور سوشل میڈیا کے پلیٹ اپنی طاقتور اور بامعنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ آج ان تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو اپنے محدود وسائل کے باوجود نسلوں کی معمار بنیں، وہ بے شمار گمنام خواتین جنہوں نے سماجی دباؤ، رکاوٹوں اور نا مساعد حالات کے باوجود علم کے فروغ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ وہ تمام نرسیں اور رضاکار خواتین جوجنگ اور بحرانوں میں انسانیت کی خدمت میں مصروف رہیں۔ وہ مزدور اور محنت کش خواتین جو کھیتوں میں جلتی دھوپ اور فیکٹریوں میں مشینوں کی گرج کے درمیان مصروف عمل رہیں ۔ اسی طرح تحقیق، تدریس، سائنس، طب، قانون اور دیگر شعبوں میں اپنی قابلیت اور استقامت سے نمایاں مقام حاصل کرنے والی خواتین جو اعلی عہدوں پر فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہو کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
عالمی یومِ نسواں خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کو درپیش مسائل پر گفتگو کے کئی مواقع فراہم کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہر سال بلند ہونے والی یہ آوازیں کیا حقیقی معنوں میں خواتین کے حالات بدلنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں یا محض ایک دن کی بازگشت بن کر خاموش ہو جاتی ہیں؟ کسی بھی سطح پر انتہاپسندانہ نظریاتی جنگوں کی بجائے خواتین کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے تاکہ ہزاروں باصلاحیت خواتین ترقی کے مواقع سے محروم نہ رہیں۔