حمید نظامی اور حق گوئی کا مشن / سرفراز راجا

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
شاعر مشرق علامہ اقبال نے جو کہا وہ محض ان کی نظم کا مصرعہ یا شعر ہی نہیں جدوجہد کی ایک داستان ہے ایک پیغام، ایک مشن ہے وہ مشن جو صحافت کے اصولوں کی بنیاد بنا ،ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کا مشن، مظلوم کی آہ سے اقتدار کے ایوانوں کے در کھٹکھٹا نے کا مشن، معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی آواز بننے کا مشن، مشن کہہ دینا یا مشن بنالینا تو شاید بہت آسان ہے لیکن مشن پر چلتے رہنا اس کے لیے ہر طرح کی مشکلات سہنا اور ظلم و جبر کے تاریک سایوں میں روشنی کی کرن بن کر امید دلانا، کوئی کوئی ہی یہ ثابت قدمی دکھا سکتا ہے۔
آج بھی صحافت کو مشن سمجھ کر اپنانے والے جب تاریخ کے اوراق میں کوئی آئیڈیل تلاش کرتے ہیں تو حمید نظامی جیسے نام ہی ملتے ہیں جنہوں نے صحافت کو مشن بنایا، مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیں لیکن ڈٹے رہے، حوصلہ متزلزل ہوا اور نہ حق گوئی کا ساتھ چھوڑا اپنا سچ نہیں بلکہ قوم ملک اور جمہوریت کے سچ کو سچ بتایا، دیانتداری اور درد دل کے ساتھ، ڈاکٹر فوزیہ اسحق کی کتاب ‘بحیثیت صحافی حمید نظامی’ سے 1949ء کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ‘آج یونیورسٹی میں ایک میٹنگ ہے جس میں حمید نظامی ،علامہ اقبال کے اشعار میں ‘پاکستان کی منزل مقصود’ پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ میٹنگ چند اصحاب پر مشتمل تھی جو پاکستان کے مستقبل استحکام اور بقا کے متعلق دردمندی اور خلوص سے غور وفکر کیا کرتے تھے۔ اس بزم کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جب مقررہ وقت پر اجلاس شروع ہوا اور نظامی صاحب نے اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا تو خیالات کی روانی، خلوص کی فراوانی اور غوروفکر کی گہرائی نے سب کو ہمہ تن گوش بنا دیا۔
نظامی صاحب، علامہ اقبال کے فارسی، اْردو کے اشعار سے اسلام، ملت اسلامیہ اور پاکستان کے مفہوم کو بڑے دل نشین پیرائے میں واضح کر رہے تھے۔ قوم و ملک کے درد ناک حالات، ملت اسلامیہ کی ابتری، مرد مسلمان کی زبوں حالی اور لیڈروں کی اخلاقی پستی کا ذکر آیا تو جذباتی ہو گئے۔ آواز لڑکھڑا رہی تھی، آخر جذبات کا دھارا بہہ نکلا اور نظامی صاحب آبدیدہ ہو گئے۔ ہم میں سے ہر ایک کی آنکھ اشک بار تھی، آخر بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے آپ پر قابو پایا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا،
’ہمیں آج جرأت مندی اور بے باکی کی سخت ضرورت ہے، پاکستان بن گیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی آرزو پوری ہو گئی، قائداعظم کی رحلت کی وجہ سے فتنے سر اٹھانے لگے ہیں۔ غلط کار رہنما ملک وقوم کی بہبودی سے بے نیاز اپنی کرسیوں کی حفاظت کے لیے سر گرم عمل ہیں، ذاتی منفعت نے انھیں اندھا کر دیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبال کے کلام کو نوجوانوں کے دلوں میں بٹھایا جائے تاکہ اقبال کے مرد مومن تیار ہوں اور ملک وقوم کی حفاظت کر سکیں۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق کہہ سکیں اور کسی خوف، تحریص، دھمکی یا لالچ سے مرعوب نہ ہوں‘۔
دور جدید کی صحافت آج تیز رفتارٹیکنالوجی کی چکا چوند میں کہیں گم ہو کر رہ گئی، صحافی تو بہت ہیں صحافت ڈھونڈنا پڑتی ہے مطمح نظر بدل چکا ہے اس صحافتی بحران نے لوگوں کا اعتماد بھی کھو دیا، ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے وہ سچ جو انھیں ویوز، لائکس اور ریٹنگ کی دوڑ میں برتری دلا دے، مشن اب مقصد بن چکا ہے وہ بھی صرف ذاتی مفاد کا مقصد، اس صحافتی بحران نے آج کے صحافیوں کو اس مشن سے کوسوں دور لا کھڑا کیا ہے جس کی بنیاد ہماری صحافت کے آباو اجداد نے رکھی تھی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے جدوجہد کا مشن ،غریب اور مظلوم کی آواز بننے کا مشن، مکمل دیانتداری کے ساتھ اور ہر طرح کے حالات میں حق و سچ کے پرچار کا مشن، حمید نظامی کا مشن، نوائے وقت کا مشن، آج کا مشن یہ بھی بن چکا ہے کہ اپنے اس حقیقی مشن کو بھولنے اور بھلانے نہیں دینا یاد دلاتے رہنا ہے اور اپنے بزرگوں کو بھی یہ پیغام پہنچانا ہے ‘مت سمجھو ہم نے بھلا دیا’۔
٭…٭…٭