موسمیاتی تبدیلیاں اور ہماری ذمہ داری! / قدیر حسین

گزشتہ روزہونے والی بارش کے بعد جہاں فضا سے گردکاخاتمہ ہوچکا ہے،وہیں آسماں اپنے بھرپور سفیدونیلی چادر میں دِکھ رہاہے۔زمیں پر خشک مٹی پرپڑنے والی بوندوں کی مہک سانسوں کومعطرکررہی ہے،درختوں کی نئی کونپلیں نکل رہی ہیں اور بلبل کی چہچاتی آوازیں یہ بتلارہی ہیں کہ بہارکاموسم شروع ہوچکا ہے۔پاکستان میں شجرکاری مہم کا جوجوش وخوروش گزشتہ تین چارسال سے دیکھنے میں آیاہے وہ قابل تحسین ہے۔یوں توموسمیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف پاکستان بلکہ د نیابھرنبردآزما ہے لیکن اِن تبد یلیوں کاموجب بھی حضرت انسان ہی ثابت ہورہا ہے۔اوراِن تبدیلیوں کے موجب بھی آج کے مہذب اورترقی یافتہ ممالک ہیں۔پاکستان ودیگرمما لک کااِن تبدیلیوں میں حصہ انتہائی قلیل ہے۔بہر حال نقصانات کے حوالے سے پاکستان بھی سرفہر ست ہے جسے ہرسال سیلاب،خشکی،بے موسمی بارشو ں،درجہ حرارت میں زیادتی جیسے نقصانات اٹھانا پڑر ہے ہیں لیکن اگردیکھاجائے توپاکستان کے اندرون بحثیت پاکستانی ہم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔سب سے زیادہ نقصان ٹمپرمافیا،ہاؤسنگ سوسائٹیز کی وجہ سے جنگلات کاخاتمہ اورآبادی میں تیزی سے اضافہ بھی شامل ہے۔راقم الحروف کا تعلق چکوال سے ہے لہذااپنے گھر سے آغاز کرتے ہیں ۔ چند سال قبل ہی ہمارے علاقہ میں سوئی گیس کی سہو لت آنے کے بعد نیلہ دلہہ انٹرچینج سے لیکرڈھڈیال تک کاعلاقہ جوچھوٹے چھوٹے جنگلات پر مشتمل ہے،جہاں پرعلاقائی درختوں میں کیکر،پھلائی،شیشم ،بیری جیسے درخت پائے جاتے ہیں۔جونہی گیس کی سہولت میسر ہوئی دھڑادھڑدر ختو ں سے لدی ٹریکٹر ٹرالیاں روزانہ کی بنیاد پر ڈھ ڈیال،چکوال،چک بیلی خان کی جانب روانہ ہوتی ہیں۔ایک دوست کے بقول اب تو دس پندرہ سال پرانا درخت بھی دیکھنے کوکم ملتا ہے۔اب بات کرتے ہیں راولپنڈی ڈو یڑن کی توخطہ پوٹھوار میں تقریباً یہی چھوٹے جنگلا ت اوردرخت پائے جاتے ہیں لیکن گزشتہ ایک دہائی میں توایسے صفایاہوا جیسے یہاں کبھی درخت تھے ہی نہیں۔ضلع چکوال میں چوآسیدن شاہ کے علاقہ میں جوحال سیمنٹ فیکٹریوں نے کیاو ہ قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ د یکھاجائے توپاکستان کے شمالی علاقہ جات کا بھی پر سا ن حال نہیں جہاں کبھی صدیوں پرانے درخت پائے جاتے تھے وہاں اب صرف خالی پہاڑ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں اورجنگلات بھی انتہائی قلیل رقبہ پر رہ گئے ہیں۔ ٹمپرمافیاروزانہ کی بنیاد پر دریا کے موجوں میں لکڑی کوبہاکرخوب کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔گزشتہ دوسال قبل سوات میں سیلاب نے کچھ ہوٹلوں کوبھی بہاکراپنی موجوں میں سمیٹ لیاتھا اِس کی بھی یہی وجہ تھی کہ جوپانی کی گزرگاہیں ہیں اِن کے بیچ عمارتیں بنادی گئیں۔پاکستان میں پائے جانیوالے گلیشئرز میں سب سے بڑاگلیشئربھی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مسلسل پگھل رہاہے چاردہائیوں میں یہ ٹکڑا دس فیصد چھوٹاہوچکا ہے جبکہ موسمیاتی ماہرین کے مطابق یہ ہرماہ 4میٹر تک سکڑتاجارہاہے۔اگر بات کی جائے پنجاب کی تواِس کی پہچان ہی زراعت ہے جس کی تاریخ انسان کے ابتدائی زرعی زمانہ پر مبنی ہے لیکن اِس شعبہ کابھی وہی حال ہواجیسے باقی شعبوں کاسرمایہ دارانہ نظام نے حال کیا،صنعتوں کیساتھ ساتھ پراپرٹی مافیا کے پیسوں کی چمک نے زراعت اور کسان کی مسلسل حوصلہ شکنی کی اور زراعت سے زیادہ پیسہ دکھاکرہاؤسنگ سوسائٹیز نے کھیت کھلیان ہڑپ کرنا شروع کئے۔پاکستان کی اتنی آبادی نہیں جتنی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے زمینیں خرید کرکام شروع کئے ہوئے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے موجب بڑے ممالک کم ازکم حالیہ چند ہونیوالی ”کاپ 28،کاپ 29”جیسی کانفرنسوں کے بعد متاثرہ ممالک کیلئے فنڈنگ دینے پر توراضی ہوئے ہیں لیکن صرف چندہ لینے دینے سے مسائل حل نہیں ہونے۔خصو صاًا گر پاکستان کے اندرون کی بات کی جائے توحکومتی سطح پر جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ،ہاؤسنگ سوسائٹیز کے پھیلاؤکوکم کرنے اور نئے جنگلات کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔جہاں د نیاگرین انرجی،الیکٹرک ذرائع کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے جدیدمنصو بوں پر کام کررہی ہے وہیں ہم صرف اجتماعی طور پرد عائیں مانگنے تک ہی محدود ہیں،گزشتہ روزبارش کے بعدجہاں پاکستانیوں کی خوشی دیدنی تھی وہیں ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماراکیاکردارہے اورکیاکرنے کی ضرورت ہے۔