ملک کے ابتر حالات/ بلقیس ریاض

ایک روزمیں اپنے گھر کے قریب ہی پارک میں واک کر رہی تھی تو میری نگاہ بینچ پر بیٹھی ہوئی اپنی پڑوسن کی طرف اٹھ گئی۔ وہ بڑی مغموم(اداس) سی بیٹھی ہوئی تھی۔ میرے قدم رک سے گئے میں نے غور سے اس کی جانب دیکھا۔ اس کا رنگ پیلا زرد ہو رہا تھا۔ میں اس کے قریب آتے ہوئے پوچھنے لگی۔ آپ بہت پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ اس نے خالی خالی نگاہوں سے مجھے دیکھا وہ بات کرناچاہتی تھی مگر اس کی زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ وہ بمشکل دھیرے سے کہنے لگی۔ اس وقت میں بہت پریشان ہوں۔ سمجھ نہیں آتا کہ میں کس طرح آپ کو بتاؤں۔ میں اسی پارک میں آپ کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے واک کر رہی تھی اور بہت کم لوگ واک کر رہے تھے۔ موسم سرد ہونے کی وجہ سے میں آہستہ آہستہ واک کر رہی تھی۔ اس وقت وہ جگہ سنسان تھی کہ ا یک دم دو لڑکے میرے قریب آ گئے اور گن پوائنٹ پر مجھے روک لیا۔ موت کا خوف اس قدر تھا کہ مجھ سے آواز ہی نہ نکلی۔سکتہ سا ہو گیا تو انھوں نے کمال پھرتی سے میری کلائی سے سونے کی چوڑیاں تیز دھار چیز سے کاٹیں اور انگوٹھیاں بے دردی سے اتاریں۔ دور سے دیکھا تو دو شخص واک کرتے ہوئے میری طرف آرہے تھے اوروہ لڑکے پھرتی سے بھاگ گئے۔ لیکن میرے اندر خوف سرایت کر گیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک میں بینچ پر بیٹھی ہوں اتنی سکت نہیں کہ میں گھر جا سکوں۔ پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو ان کے گھر تک چھوڑ دیا۔
اس خاتون کی باتیں سن کر رہ رہ کر خیال آرہا ہے کہ اس ملک کے حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ ایک مہنگائی کی وجہ سے چوری ڈکیتیوں کا کام دن دھاڑے ہو رہا ہے، گداگری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، غریب اور متوسط سطح کے لوگوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ سفید پوش دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہو گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو ساری دنیا میں مہنگائی بڑھتی ہے مگر ایک خاص طبقے کو اتنا فرق نہیں پڑھتا۔ مہنگائی ہوتی ہے تو ان کی تنخواہیں بڑھ جاتی ہیں۔ دوسرے ملکوں میں نادار اور غریب لوگوں کے لیے شیلٹر ہاؤسز اور الاؤنس گورنمنٹ مہیا کرتی ہے۔ وہ کھانے پینے کے علاوہ اپنے شیلٹر ہاؤسز میں رہتے ہیں فٹ پاتھوں پر بھیک نہیں مانگتے۔ ہاں البتہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی علاقہ ایسا ہوتا ہے جہاں رات کے وقت سیاہ فام لوٹ لیتے ہیں۔
بہت سال پہلے جب بھی کسی دوسرے ملک میں جاتی تو کہا جاتا سب جگہ گھوم پھر لیں مگر اس علاقے میں مت جائیں مگراپنے ملک میں دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے حالات بگڑتے گئے۔ روشنیوں کے شہر کراچی میں سر شام ہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ باہر کے ملکوں میں ابھی تک مخصوص علاقوں میں ایسی وارداتیں ہوتی ہیں مگر اور لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ علاقہ سیف نہیں ہے تو وہ جانے سے گریز کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک کا کوئی شہر محفوظ نہیں ہے۔
ملک کا اچھا سسٹم ہونا چاہیے تو سب کچھ اچھا ہو سکتا ہے۔ دوسرے ملکوں کا سسٹم اچھا ہونے کی وجہ سے وہ ملک خوشحال ہیں۔ ملک کے لیے زبانی کلامی باتیں کرتے ہیں۔ عملی طور پر کچھ نہیں کرتے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ لوٹ مار سے کافی لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ بھی سب جانتے ہیں۔ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے اور اس نے رائی رائی کا حساب بھی لینا ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو اپنے رویے بدلنے ہوں گے اللہ کے حکام پر چلنا ہو گا تب جا کرشاید اللہ ہم سے راضی ہو جائے گااور یہ گداگری اور لوٹ کھسوٹ بھی ختم ہو جائے گی لوگوں کو روزگار بھی مہیا ہو جائے گا تو ہمارے ملک کے حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔ کاش کوئی ایسا صاحب اقتدار آئے جو ملک کو جنت کا گہوارہ بنا دے اور لوگوں کے مسائل کو حل کرے اور ان کی غربت دور کرے۔ اللہ سے میری التجا ہے۔ شاید یہ دن آہی جائے میرا اللہ پر بھروسا ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب ملک کے سنگین حالات سے ہم نجات پا جائیں گے۔ امید پر دنیا قائم ہے۔