fbpx
منتخب کالم

 وکلاء  ایک بار پھر سڑکوں پر/ محمد اکرم Ú†ÙˆÛ�دری


اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تقرری پر وکلا حکومتی طریقہ کار پر احتجاج کے لیے برسر پیکار اور سرکار اپنی من مانی کرنے پر تلی ہے ایک ہی وقت میں بہت سے محاذوں پر کامیابی کے دعووں کیساتھ میدان میں ہے اور یہ یقیں رکھتی ہے کہ وہ بہتر فیصلے اور بہتر صلاحیت کیساتھ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرے گی
ایک طرف پیکا ایکٹ کے مخالفت میں صحافی سڑکوں پر ہیں اور حکومت بھی تلی ہے کہ فٹا فٹ کاموں کو سمیٹیں اور آگے بڑھنے کیلئے سب کچھ کر گزرنے پر تلی ہوئی ہے معاملات کوباہمی طور پر حل کرنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کی سیاسی صورتحال یقیناً ایک بار پھر گرم ہو رہی ہے، بار ایسوسی ایشن نے 10 فروری کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ یہ ترقی ایک کمزور معیشت اور گہری ہوتی ہوئی گھریلو تقسیم کے درمیان ہوئی ہے، جو ملک میں مسلسل تشویش کا باعث ہیں۔
احتجاجی اعلان سے پتہ چلتا ہے کہ قانونی برادری بعض مسائل پر ایک مضبوط موقف اختیار کر رہی ہے، جو ممکنہ طور پر عدالتی آزادی، قانون کی حکمرانی، یا انسانی حقوق سے متعلق ہیں۔ تاہم، مزید مخصوص معلومات کے بغیر، احتجاج کے پیچھے صحیح وجوہات کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان نے ماضی میں پرامن سیاسی تبدیلیوں کا تجربہ کیا ہے، جیسا کہ 2013 اور 2018 کے انتخابات کے بعد۔ بہر حال، موجودہ صورتحال تیزی سے اتار چڑھاؤ کا شکار نظر آتی ہے، اور آنے والا احتجاج ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک نازک لمحہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کل کے لیے اعلان کردہ احتجاج سے عدالتی کام کاج اور شہر کی مجموعی صورتحال متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہاں کچھ ممکنہ احتجاج عدالتی سماعتوں کو منسوخ یا ملتوی کرنے کا باعث بن سکتا ہے، جس سے قانونی چارہ جوئی اور وکلاء کو تکلیف ہو سکتی ہے۔احتجاج امن و امان میں خلل کا باعث بن سکتا ہے، ممکنہ طور پر ٹریفک جام، مظاہرے، اور مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہو سکتی ہیں۔احتجاج کی نوعیت پر منحصر ہے، یہ شہر میں سیاسی تناؤ کو بڑھا سکتا ہے، ممکنہ طور پر دوسری سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، یا حکومتی اداروں کو کھینچ سکتا ہے۔
احتجاج عوامی خدمات، جیسے ہسپتال، سکول اور عوامی نقل و حمل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، کیونکہ مظاہرین سڑکوں کو روک سکتے ہیں یا عوامی سہولیات کے قریب جمع ہو سکتے ہیں۔
احتجاج کے شیڈول، مطالبات اور شہر پر ممکنہ اثرات کے بارے میں باخبر رہنا ضروری ہے۔ اپ ڈیٹس کے لیے، آپ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں یا اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔جی ہاں، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا احتجاج ممکنہ طور پر حکومت کے لیے ایک نیا ہنگامہ بن سکتا ہے۔ یہاں کچھ وجوہات ہیں کیوں:
1 ۔سیاسی تناؤ میں اضافہ: احتجاج سیاسی تناؤ کو بڑھا سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔
2 ۔عدالتی بحران: احتجاج ایک عدالتی بحران کا باعث بن سکتا ہے، عدلیہ اور حکومت کے درمیان عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی جیسے مسائل پر اختلاف ہے۔
3 ۔عوامی بے چینی: احتجاج عوامی بے چینی کو جنم دے سکتا ہے، جس میں شہری حکومت کی جانب سے صورتحال سے نمٹنے پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔طویل احتجاج اور عدم استحکام معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے، جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد اور ملک کی اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔
ان خطرات کو کم کرنے کے لیے، حکومت غور کر سکتی ہے:
عدلیہ کے ساتھ مکالمہ: عدلیہ کے ساتھ تعمیری بات چیت میں ان کے خدشات کو دور کرنے اور باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنا۔
2 ۔عدلیہ کی آزادی سے خطاب: عدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا، جس سے تناؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
3 ۔عوامی رسائی: عوام کے ساتھ ان کے خدشات کو دور کرنے اور استحکام اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں حکومت کے عزم کے بارے میں یقین دہانی فراہم کرنا۔
بالآخر حکومت کا ردعمل اس صورت حال کے نتائج کا تعین کرنے میں اہم ہوگا۔ ایک تعمیری اور جامع نقطہ نظر تناؤ کو کم کرنے اور مزید ہنگامہ آرائی کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے