سوشل میڈیا پر آئے روز ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ جن میں پشتون اور سندھی دست و گریباں ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کس نظریہ کے تحت معرضِ وجود میں آیا۔ یہ بات ذہن میں راسخ کر لینی چاہیے کہ پاکستان سب کا ہے، سندھ ہمارا ہے۔ سندھ پرامن دھرتی ہے۔ یہ حضرت لعل شہباز قلندر،حضرت عبداللہ شاہ غازی، شاہ لطیف بھٹائی، سچل سرمست اور دیگر جید بزرگوں، صوفیاء اور اولیاء کا مسکن ہے۔ ان معتبر ہستیوں نے ہمیشہ اخوت و بھائی چارے کا پرچار کیا۔ یاد رکھیے گا کہ سندھ وہ زمین ہے جس نے ہر قومیت، نسل، ذات پات، زبان کے افراد کو نہ صرف پناہ دی بلکہ روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے۔ صد افسوس! ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تشریح سے کیوں قاصر ہیں… کیوں فراموش کر بیٹھے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام ایک گلدستہ کی مانند ہے۔ خیبر پختونخوا پاکستان کا جھومر ہے، ایسا سیاحتی مقام جس کی خوبصورتی اور قدرتی ذخائر کے چرچے عالمی سطح پر ہیں۔ اگر لسانی فسادات کی بنیاد پر وہ بھی سندھیوں کا داخلہ ممنوع کر دیں گے تو خدانخواستہ ایک اور ’’مشرقی پاکستان ‘‘ جیسا سانحہ ہمارا منتظر ہوگا۔ تاریخ کے اوراق پلٹائیں تو معلوم ہوگا کہ مشترکہ مذہب ہونے کے باوجود پاکستان کے دونوں بازوؤں (مشرقی و مغربی پاکستان) میں نسلی و لسانی خلیج کو بڑھانے میں بھارت نے خفیہ سازش سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
مجیب الرحمن تو بس ایک مہرا تھے اور ان دنوں الیکشن بھی تھے۔ لہٰذا ہم باآسانی اخذ کر سکتے ہیں اب بھی الیکشن کا دور دورہ ہے اور ممکنہ طور پر فسادات بھی بام عروج کی جانب گامزن ہیں۔ قارئین یہ بات کسی بھی قسم کے شک سے پاک ہے کہ پاکستان میں امن و امان کی فضا دشمنوں کو بری طرح کھٹکتی ہے اس لیے وہ ملک کے مختلف حصوں میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کے لیے مذموم ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈھیروں ناقابلِ تردید شواہد سامنے آچکے ہیں۔ بھارت کے میجر گوروآریہ متعدد بار دعوی کر چکے ہیں کہ انکا ٹارگٹ فارن فنڈنگ سے بلوچوں میں انتشار پھیلانا ہے۔ سندھیوں اور پنجابیوں میں عصبیت کی آگ بڑھکانا ہے، پشتون کلچر کو دہشت گرد دکھانا ہے وغیرہ۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کو بطور مورچہ استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستانی بے خبر ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ففتھ جنریشن وار کی خونی شطرنج کے ذریعے پاکستان کی بساط کو لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیاسی،مذہبی، جماعتوں کو چھوٹے چھوٹے لاتعداد گروہوں میں منقسم کر دیا جائے، عوام کو صوبائیت کی سطح پر مرکز سے علیحدہ کر دیا جائے۔ نتیجتاً پاکستانی عوام اکتاہٹ، کنفیوژن، ڈس انفارمیشن اور گھبراہٹ کا شکار ہو کر بہتر فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔
قارئین دشمن تاک میں بیٹھا ہے۔ صرف اور صرف اتحاد و یکجہتی کے ذریعے ہی لسانی فسادات کی آگ کو سرد کیا جا سکتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو کہاں دھکیلا جا رہا ہے کہ اس حد تک ملک صوبائی تعصب کا شکار ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر شے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ لوگ بیروزگاری، کرپشن، بجلی، گیس کی عدم، جعلی ادوایات سے اموات اور دوسرے غیر اخلاقی مسائل کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حیف آجکل نسلی عصبیت پر فخر کرنے کا بہت رواج ہے۔ لوگ سندھی، بلوچی، پشتون، پنجابی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔
تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ اس خطے میں جن لوگوں نے کوئی قابلِ ذکر کام کیا وہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کیا نہ کہ نسلی برتری پر تفاخر کرتے ہوئے۔ ! حل اسی بات میں مضمر ہے کہ مسلمانوں کو مختلف جہات سے اتحاد و یگانگت کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور تفرقہ میں پڑنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
٭…٭…٭
Follow Us