علی امین گنڈاپور کا افغان حکومت سے مذاکرات کے لئے صوبائی سطح پہ وفد بھیجنے کا ایک اور بیان آیا ہے ،کیاگنڈاپور صاحب مذاکرات کی آڑ میں مقامی مافیا کے پریشر کے زیر اثر ، کسی بھی طرح افغان بارڈر پہ سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاروبار دوبارہ شروع کرنے کے لئے کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں؟وزیر اعلیٰ صاحب کو کب سمجھ آئے گی کہ ریاستوں کے مابین تعلقات دفتر خارجہ اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ صوبائی حکومت کی، خیبر پختونخوا کے ایک شہری کی حیثیت سے بحثیت وزیر اعلیٰ ، میری ان سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی صوبے میں گورننس اور امن و امان پہ توجہ دیں،آئین کے مطابق بین الاقوامی مذاکرات صرف وفاقی حکومت کا مینڈیٹ ہے۔ بہتر ہوگا گنڈاپور اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے صوبے کی تعمیر و ترقی پر غور کریں،20 جنوری 2025 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں علی امین گنڈا پور نے اعلان کیا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور پاک افغان مسائل کے حل کے لیے افغانستان میں وفد بھیجیں گے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ علی امین گنڈاپور نے ایسا بیان دیا ہو، چند ماہ پہلے بھی علی امین صاحب نے اسی طرح کے
خیالات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم، افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف بڑھتے الزامات اور دہشت گردی کے واقعات میں افغان عناصر کے ملوث ہونے کے باعث علی امین کے یہ بیانات سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔علی امین کے ایسے بیانات سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ اپنے علاقے کے مشران اور قبائلی افراد کو خوش کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان مشران کو بارڈر بندش اور اسمگلنگ پر پابندیوں سے مسائل کا سامنا ہے۔افغان طالبان سے مذاکرات کی خواہش دراصل بارڈر پابندیوں کو ختم کروانے اور پرانے فرسودہ نظام کو بحال کرنے کی ناکام کوشش ہے، جس میں انہیں اسمگلنگ، غیر قانونی سرگرمیاں اور دہشتگردوں کی پشت پناہی اور دیگر غیر قانونی کاروائیاں کرنے کا موقع مل سکے گا۔یہ بات قابل غور ہے کہ یہ مشران خود جرگہ کے فیصلوں پر عمل کرنے کی بجائے اکثر ان فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے قبائلی روایات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ علی امین اپنے علاقے اور صوبے پر توجہ دیں جہاں کی ان کی بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام مشکل حالات سے دوچار ہیں، ہسپتالوں کے برے حالات ہیں اور کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہو رہے۔