ملتان میں انگلینڈ کیخلاف سپن وکٹ بنا کر فتوحات سمیٹنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اسی گورکھ دھندھے کو اپنا کر ویسٹ انڈیز کو بھی ساجد، نعمان اور ابرار نے ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کو پہلے ٹیسٹ میں تین دن سے بھی پہلے شکست کا تختہ مشق بنا ڈالا گو کہ اس وکٹ پر پاکستان کی بیٹنگ کو لمبے رنز کرنے چاہیے تھے جبکہ ٹاس بھی شان مسعود اینڈ کمپنی نے ہی جیتا تھا اور وکٹ کو دیکھتے ہوئے پہلے بلے بازی کرنے کا درست فیصلہ بھی کیا تھا۔ پاکستان اور خصوصاً پنجاب میں موسمی تغیرات کی وجہ سے دھند نے دیرے ڈالے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے ملتان میں بھی دھند نے میچ کو لنچ سے پہلے شروعات کرنے کی اجازت نہ دی۔ ابتدا میں تو ویسٹ انڈیز گیند بازوں جسے ماضی کی کالی آندھی بھی کہا جاتا ہے نے آتے ہی پاکستانی ٹاپ آرڈر کو معمولی رنزوں پر پویلین کی راہ دیکھا دی جسکی وجہ سے سلیز نے تین وکٹیں لے کر ایسا لگتا تھا کہ شان مسعود کے فیصلے کو ہی غلط ثابت کردیا۔ معمولی سکور پر پاکستان کے چار کھلاڑیوں کے آوٹ ہونے پر پاکستانی کرکٹ ٹیم سخت دباؤ میں آ گئی بابر اعظم جو پچھلے میچوں میں رنز کرتے نظر آتے تھے اس میچ میں انکی ناکامی نے تو مایوسی میں بہت اضافہ کیا پاکستان کے سابق سٹار بلے باز اور کپتان شعیب ملک کے بھتیجے محمّد ہریرہ کی کیریئر کی پہلی اننگز میں ناکامی بھی انکے لئے مسائل پیدا کر سکتی تھی خیر پھر سابق کپتان رضوان خان اور سعود شکیل نے ایک اچھی ساجھیداری اختیار کرتے ہوئے نصف نصف سینکڑے بھی اپنے ریکارڈ میں لکھوائے اور پاکستان کو کسی حد تک مشکلات کے بھنور سے بھی نکالا لیکن میچ کے دوسرے دن پاکستان کی بقیہ چھے وکٹوں نے قابل ذکر ٹوٹل میں اضافہ نہ کیا۔ پاکستان کی بیٹنگ سائیڈ کو ویسٹ انڈیز کی اس سائیڈ کیخلاف سکور میں مزید اضافہ کرنا چاہیے تھا۔ سعود شکیل بدقسمتی سے اپنی سنچری نہ کر سکے رضوان اور سعود شکیل کے علاوہ پاکستان کی باقی ماندہ کھلاڑیوں کی رنزیں نہ کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے میچ کے دوسرے دن انیس وکٹوں کا گر جانا میچ کے فیصلہ کن ہونے کی واضح نوید تھی جس میں پاکستان کی فتح کا ستارہ چمکتا ہوا نظر آنے لگا تھا کیونکہ اس روز ساجد، نعمان اور ابرار نے جزائر غرب الہند کی ٹیم کو چھکے چھڑاتے ہوئے خاصے کم سکور پر پویلین بھیج دیا تھا۔ کھیل کا تیسرہ روز بھی تباہ کن تھا اس دن بھی سترہ وکٹوں کے شکار نے ٹیسٹ میچ کو ہی تین دن سے پہلے ختم کر ڈالا پہلے دن کے آدھے دن سے زیادہ کے کھیل نہ ہونے کے وقت کو بھی شمار کیا جائے تو یہ پہلا ٹیسٹ میچ بھی ہی کم وقت میں پاکستان کی فتح اور سیریز میں برتری کیساتھ اپنے انجام کو پہنچا تیسرے دن کے کھیل میں پاکستان کی بقایا سات وکٹوں کا معمولی سکور پر آوٹ ہونا بھی ویسٹ انڈیز کی کمزور بولنگ کے سامنے کوئی اچھی بات نہیں۔ اس اننگز میں بھی ویریکین کی سات وکٹوں نے یہ بتا دیا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں ایک آدھ سپنر کی ضرورت ہے اگر ایسا ہو جاتا تو یہ میچ بھی دلچسپ ہو سکتا تھا۔ پاکستان کی دوسری اننگز میں کپتان شان مسعود کی ففٹی اور محمّد ہریرہ کا سمنبھل کر کھیلنا بھی فائدہ مند ثابت ہوا جبکہ کامران غلام نے بھی اس لیڈ میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان حالات میں بھی ویسٹ انڈیز کے اتھانزے کی نصف سنچری نے بھی مزاحمت کی جو کہ ویسٹ انڈین کیمپ کیلئے خوش آئند ہے فتح کے باوجود پاکستان کی بیٹنگ لائن ویسٹ انڈیز کی اس کمزور ٹیم کیخلاف سوالیہ نشان ہے۔ اپنا ہوم گراؤنڈ ہو مرضی کی وکٹیں ہو مد مقابل بھی کمزور ہو ایسی وکٹوں پر بھی پاکستانی بلے باز بڑا سکور نہ کر سکے تو انکی کارکردگی پر غور و فکر لازمی ہے۔
Follow Us