زندگی سوشل میڈیا میں الجھ کر رہ گئی ہے / تابندہ خالد

فی زمانہ معاشرہ بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارم کی جانب متوجہ ہو رہا ہے جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ سکیں۔ سیاسی، مذہبی، معاشی، معاشرتی مسائل پر اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کر سکیں نیز اپنی آراء اور نظریات کو بطور تبصرہ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ ابلاغیات کے روایتی ذرائع یعنی اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے میڈیم میں اپنی محدود ترین شمولیت کے باعث سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ ہماری زندگی میں سوشل میڈیا اب جزو لاینفک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ فی زمانہ معاشرہ بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارم کی جانب متوجہ ہو رہا ہے جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ سکیں۔ سیاسی، مذہبی، معاشی، معاشرتی مسائل پر اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کر سکیں نیز اپنی آراء اور نظریات کو بطور تبصرہ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ درحقیقت سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے پوری دنیا ایک برقی صفحے میں سمٹ گئی ہے۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں وقت جس برق رفتاری سے گزر رہا ہے ایسے میں اپنوں سے باخبر رہنے کیلئے سوشل میڈیا ایک سہل منبع ہے۔
قارئین! آج سے 45 سال قبل جب مواصلات کا کوئی مخصوص ذریعہ نہیں تھا۔ کسی عزیز کی وفات پر ایک قاصد پیغام لے کر جاتا سب کو اکٹھا کرکے لاتا اس طرح کئی دن صرف ہو جاتے لیکن سوشل میڈیا سے تو تیز تر پیغام رسانی ممکن ہوگئی ہے۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ اس نے ایک ساتھ ایک گھر حتیٰ کہ ایک کمرے میں رہنے والوں کو اتنا دور کر دیا ہے کہ والدین کو بچوں کی تربیت، انکی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانے کے علاوہ تفریح کا ٹائم میسر نہیں جس سے بچوں کی نشوونما ہوتی ہے۔
دوسری جانب نوجوان نسل والدین کی خدمت گزاری کی بجائے اپنے قیمتی لمحات سوشل میڈیا کی نذر کر رہے ہوتے ہیں۔
بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کی کوئی خبر نہیں۔ موبائل ڈیوائس کی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں ایک دنیا آباد ہے۔ ایک لمحے میں کسی ملک اور دوسرے لمحے میں کسی اور سرزمین کا رخ کرنا مشکل نہیں رہا۔ اکثر اوقات یہ فیصلہ کرنا کٹھن ہو جاتا ہے کہ کدھر کلک کیا جائے۔
سوشل میڈیا معلومات، انٹرٹینمنٹ کاایسا سمندر ہے جہاں تنہائی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم ایموجیز کے ذریعے اپنے احساسات کا بخوبی اظہار کر سکتے ہیں۔ اگر الفاظ کے چناؤ میں سختی ہو اور مسکراہٹ والا ایموجی ساتھ لگا دیا جائے تو سوشل میڈیا تحریر پڑھنے والا اندازہ لگا لیتا ہے کہ اس پر غصہ کرنا بے سود ہے۔ یعنی لکھنے والا کسی قسم کا فساد نہیں چاہتا۔ سالگرہ پر کیک اور بیمار ہونے پر رونے والا ایموجی اور ناجانے کتنے مختلف ایموجیز اسٹیکر بھیج کر اپنے احساسات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک سوشل میڈیا کا نقصان اسکے فوائد سے کہیں ذیادہ ہے۔ بالخصوص پاکستانی معاشرہ جہاں آئے روز کسی نہ کسی وجوہات کی بنا پر تعلیمی ادارے (سکول، کالجز، یورنیورسٹیاں وغیرہ) بند ہونے کے باعث فارغ اوقات میں بیشتر نوجوان نسل سوشل میڈیا محاذ پر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔
دنیا میں ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں اس کا بدترین استعمال کیا جاتا ہے پاکستانی قوم اس وقت اخلاقی گرواٹ کا شکار ہے۔ آزادی رائے کا حق ایک خاص ذمہ داری کا نام ہے جس میں سماج، ثقافت، روایت اور مذہب کے چند واضح کردہ بنیادی ضوابط ہر کسی کو اپنانے پڑتے ہیں مگر ہزاروں کی تعداد میں جعلی اکاؤنٹس بنا کر مخالفین یا جن سے بغض رکھا جائے انکی دشنام طرازی کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی کا ایسا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس میں تہذیب نام کی چیز نظر نہیں آتی۔ فیک اکاؤنٹس بنا کر لوگوں سے پیسے مانگنا ایک شغل بن چکا ہے۔ سیاسی کارکن سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہوئے نا جانے کتنی آڈیوز‘ ویڈیوز لیک کر رہے ہوتے ہیں جس کا اثر براہ راست نئی نسل پر پڑتا ہے۔ نئی نسل کو سوشل میڈیا کا فائدہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ پڑھی لکھی قیادت اس پلیٹ فارم پر پاکستان کے مسائل کے حل میں بہتر سے بہترین تجاویز حاکمِ وقت کے سامنے رکھتی مگر حیف…! ایک نیوز بلیٹن کے نیچے کومنٹس پڑھ لیں ساری صورتحال عیاں ہو جائے گی کہ یوتھ کی مینٹیلٹی اور اخلاقیات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جذبات و احساسات کے حوالے سے ہمیں رہنمائی کی ازحد ضرورت ہے۔ اظہار رائے ہو ضرور ہو مگر کچھ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے۔۔۔ کتنے لائکس، کتنے کمنٹس اور شیئرز ہوئے زندگی اسی میں اْلجھ کر رہ گئی ہے۔
٭…٭…٭