اللہ نے سزا وجزا کی حدود کا تعین ہمیشہ کے لیے کر دیا ہوا ہے وہ نہ قابل تبدیل اور نا ہی کسی کو اس پر تنقید کا حق حا صل ہے اللہ تعالی کے طے کردہ اصولوں کے مطابق دنیا نے الہامی کتابوں سے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق دنیاوی قوانین کو تشکیل دیا جن ممالک نے قوانیںکو قابل عمل بنایا اور انصاف سب کیلئے اصول پر عمل کیا اور سزائیں عبرت کی وجہ اور لوگوں کو مثبت شہری بننے پر زور دیا وہان پر قانون نے اپنی طاقت کو تسلیم کروایا،مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہنے لگی
ہمارے ہاں طاقت اور امارت نے انصاف کو موم کی گڑیا کی طرح موڑا اور عمل کرنے کے بجاے عمل سے روکنے کے طریقہ کار کی تلاش انصاف قرار پایا
بھٹو کو پھانسی کی سزا اپنے آپ کو آج 50 سال بعد بھی نا قابل تسلیم قرار پائی
شر یف بردران کی سزائیں نظریہ ضرورت کے مطابق تبدیل ہو گئیں اور وہ دوبارہ18 سال سے اقتدار میں ہیں
ایسے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا پر عمل ہو پاتا ہے یا ماضی کی تاریخ اپنی روایت قائم رکھے گی ، انصاف ہوا یا نہیں یہ ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے ہمارے ہاں جو جس کیساتھ ہے اس کا انصاف بھی یہی ہے جو پیا من بھائے
ہم صرف رائے جو صاحب رائے افراد کی ہے اس کو آپ کے سامنے رکھتے ہیں اس سے زیادہ ہمارے ہاں اجازت نہیں ہے ورنہ ہر کوئی آپ کو اپنی طرف سے مجرم بناتا ہے اور سزا سناتا ہے اور جزا کا حق بھی انکے پاس ہے ،تکنیکی اور سیاسی دونوں لحاظ سے 190 ملین کیس کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی مختلف آراء ہیں۔
تکنیکی نقطہ نظر
تکنیکی نقطہ نظر سے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلہ کیس کی میرٹ کے بجائے قانونی تکنیک پر مبنی ہو سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر منصفانہ یا انصاف پر مبنی اصولوں اور طریقہ کار کی پابندی کو ترجیح دیتا ہے۔
دوسروں کا دعویٰ ہے کہ تکنیکی چیزوں پر عدالت کی توجہ بنیادی انصاف کے اصولوں کو کمزور کر سکتی ہے، جو منصفانہ نتیجہ کے حصول کی اہمیت پر زور دیتا ہے
سیاسی نقطہ نظر
سیاسی طور پر اس فیصلے نے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کے بارے میں بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ ماہرین اس فیصلے کو سیاسی ماحول کی عکاسی کے طور پر دیکھتے ہیں، عدلیہ ممکنہ طور پر بیرونی عوامل سے متاثر ہو رہی ہے۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ فیصلہ سیاسی تحفظات سے قطع نظر، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
اہم نکات
٭ فیصلہ تکنیکی اور بنیادی انصاف کے درمیان تناؤ کو نمایاں کرتا ہے۔
٭ سیاسی تحفظات نے نتائج کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہو گا۔
٭ اس فیصلے نے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کے بارے میں بحث چھیڑ دی ہے۔
٭ذہن میں رکھیں کہ یہ نقطہ نظر عام رجحانات پر مبنی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کیس پر تمام قانونی ماہرین کی مخصوص رائے کی عکاسی نہ کریں۔ہمارے ہاں قوانیں کو توڑنا اور موڑنا سیکھ لیا ہے اور قانوں انکی باندی ہے موم کی گڑیا بہت معصوم ہے اور ہر طرف مڑ کے دیکھتی ہے اور مسکراتی ہے کہ وقت بدلتا ہے رنگ کیسے کیسے
سزا کو عوام کی پذیرائی ہی مقبولیت اور قبولیت کا فارمولہ ہی سند عطاء کرے گا اور اعلیٰ عدلیہ اس پر اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوے تمام قانونی نکات کا جائزہ لے گی
دیکھیںکب ہمارے ہاں قانون سب کے لیے کا آغاز ہوتا ہے۔
Follow Us