fbpx
منتخب کالم

فیصلہ اور مذاکرات میں باہمی تعلق/ میاں حبیب


معاشرے جب اکھڑتے ہیں تو اس کا کوئی ایک شعبہ زوال کا شکار نہیں ہوتا اس کے تمام شعبے اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ ہم سیاسی عدم استحکام کا رونا رو رہے تھے، معاشی ابتری پر کف افسوس مل رہے تھے لیکن پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اکھڑ چکی ہے۔ ملک کے آئینی سربراہ اور ایگزیکٹو سربراہ اور اہم ترین وزراء کے بیانات دیکھیں تو کونسلر کی سطح کی باتیں لگتی ہیں۔ قومی معاملات پر تماشے ہو رہے ہیں۔ جو کام بڑے باوقار طریقے سے ہونے چاہئیں ان پر ٹھٹھہ مذاق ہو رہا ہے۔ ہر سنجیدہ ایشو پر بھی ڈرامائی کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کو ہی لے لیں، کیا کیا تماشے نہیں ہو رہے۔ ہر موڑ پر ڈرامائی انداز۔ پہلے ایک دوسرے کو نفسیاتی طور پر کم تر ظاہر کرنے کی اعصابی جنگ چھیڑی گئی۔ مذاکرات پر ڈی گریٹ کرنے کے حربے استعمال کیے گئے بالاآخر بات چیت کی راہ نکلی تو کبھی دباؤ کی باتیں کی جاتی رہیں اور کبھی منتوں ترلوں کے نشتر چلائے جاتے رہے۔ کبھی ملاقاتوں پر پابندی لگا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ تمہاری حیثیت یہ ہے کہ ملاقات بھی ہماری مہربانی سے ہوتی ہے۔ ورنہ ہم چاہیں تو آپ دروازے کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے۔ جب دل کرے چھٹی کے دن اور راتوں کو بھی پھاٹک کھل جائیں، جب دل کرے مذاکرات کی میز سجا لیں، جب دل کرے میز الٹ دیں۔ یہ سب کیا گورکھ دھندہ ہے۔ چلیں یہ تو سیاستدانوں کا معاملہ ہے اس پر وہ اپنی سیاست چمکا رہے ہیں لیکن عدلیہ کے تو معاملات ہی مختلف ہوتے ہیں۔ وہاں تو پہلے سے طے شدہ امور ہیں۔ عدلیہ کی اپنی روایات اور قواعد و ضوابط ہیں وہاں تو ہر لفظ بڑا سوچ سمجھ کر بولا اور لکھا جاتا ہے، ہر معاملے میں عدالت کی توقیر کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتاہے کہ کسی عدالتی ایکٹ سے یہ تاثر نہ جائے کہ عدالت فریق بن گئی ہے۔ کہیں جھول کا شائبہ نہ ہونے پائے لیکن اب تو ہر جگہ تماشہ لگا ہوا ہے۔ فیصلوں سے پہلے اس کے اثرات زیر بحث ہوتے ہیں۔ فیصلوں سے قبل ہی اثر اندازی شروع ہو جاتی ہے اور فیصلوں سے قبل ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔ اس قسم کے تاثرات ہمارے نظام کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔ بہت ہو چکی، اب ہمیں عارضی حالات سے نکل آنا چاہیے۔ حال ہی میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190ملین پاونڈ کیس کا فیصلہ تماشہ بنا ہوا ہے۔ دسمبر سے یہ فیصلہ التواء کا شکار چلا آ رہا ہے۔ چونکہ اس کے ساتھ ساتھ ہی حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات چل رہے ہیں تو خواہ مخواہ دھیان اس طرف چلا جاتا ہے کہ اس کیس کو تحریک انصاف کی گردن پر تلوار کی طرح لٹکا کر رکھا جا رہا ہے۔ بلکہ فیصلہ محفوظ ہونے سے قبل یہ تاثر دیا گیا کہ اگر بانی کے خلاف فیصلہ آ گیا تو مذاکرات نہیں ہوں گے۔ جوں جوں مذاکرات لیٹ ہوتے گئے فیصلہ کا التواء بڑھتا گیا۔ اب تک تین بار التواء کا اعلان ہو چکا ہے۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ ایک ہی دفعہ غیر معینہ مدت تک فیصلہ کو التواء میں رکھنے کا اعلان کر دیتی۔ اوپر سے ہمارے سیاستدانوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ فیصلہ سے قبل پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس چل رہی تھی اور ہر کوئی فیصلہ سے قبل اپنی مرضی کا ماحول بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میڈیا میں بھی اس پر خوب تبصرے ہو رہے تھے اور سوشل میڈیا پر تو کمال ہی ہو گیا۔ کسی نے بھی پت اڑانے میں کسر نہیں چھوڑی۔ اب 16 جنوری کو تحریک انصاف اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کے مابین مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہو رہا ہے اور 17 جنوری کو عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلہ کی تاریخ رکھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 16 جنوری کو حکومت اپوزیشن مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکل آئے گا۔ اگر نہیں نکلتا تو کیا اس کیس کا فیصلہ مزید لٹک جائے گا؟ خواہ مخواہ ہی مذاکرات اور فیصلہ کو آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ البتہ ان سارے معاملات میں ڈیڑھ سال کے بعد اعجاز چوہدری کی بھی سنی گئی ہے۔ چیرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے ہیں۔ کئی قسم کے مناظر تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ویسے تو تحریک انصاف کو ملک بھر میں کہیں احتجاج کی اجازت نہیں لیکن وزیر اعظم نے تحریک انصاف کے پارلیمنٹرین کو احتجاج کی ایک نئی راہ دکھا دی ہے وہ اب پارلیمنٹ میں اکثر او او کرتے نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اسی دباؤ کے نتیجے میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ بیک ڈور چینل زیادہ سرگرم ہیں۔اگلے چند دنوں میں بہت کچھ آ شکار ہونے جا رہا ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے