fbpx
منتخب کالم

گاڑیوں اور صنعتوں کا زہر قاتل دھواں/ میاں حبیب


پچھلے ہفتے ہم نے بدلتے موسم اور بدلتے سیاسی حالات پر کالم لکھا تھا جس میں شاعروں کو بھی اپنی شاعری میں ترمیم کا مشورہ دیا گیا تھا کیونکہ اب ان کی شاعری ان دنوں کے موسموں سے مطابقت نہیں رکھتی جن کا انھوں نے اپنے کلام میں ذکر کیا ہے کئی چاہنے والوں نے بڑی ہوئی حدت اور انسانی زندگی کو لاحق خطرات بارے بتایا کچھ نے دنیا میں ہونے والے گلوبل وارمنگ بارے کہا اور کئی ایک نے لاہور میں بسنے والوں کی بیبسی بارے خدشات کا اظہار کیا۔ صوبائی دارالحکومت میں آبادی کوئی ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے اور دھڑا دھڑ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بہت بڑی تعداد دوسرے شہروں اور دیہات سے لاہور میں شفٹ ہو رہی ہے لاہور میں زرخیز زرعی زمین ہاوسنگ سوسائٹیوں کی نذر ہو چکی یا فارم ہاوسز میں بدل چکی۔ بڑھتی ہوئی آبادی بارود کا ڈھیر بنتی جارہی ہے۔ شہری زندگی کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ لاہور اکثر دنیا کیآلودہ ترین شہر کا اعزاز حاصل کیے رکھتا ہے۔ یہاں کے باسیوں کو صاف آکسیجن بھی میسر نہیں، نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے مداوا کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کی سڑکیں گاڑیوں کا سمندر دکھائی دیتی ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں سموگ نامی جو دھند پھیلی ہوئی تھی وہ کیا تھی۔ چند دن بڑا چرچا رہا پھر مجرمانہ خاموشی چھا گئی۔ یہ گاڑیوں کے انجن سے نکلنے والا دھواں اور گیسز ہیں جوفیکٹریوں ، ملوں اور بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والی گیسوں کا مجموعہ ہیں جو زہر سے بھری ہوئی ہیں۔ ان سے طرح طرح کی بیماریاں انسانی جسموں میں سرایت کر رہی ہیں۔
اور یہ ماحول کوئی ایک دن میں نہیں بنا ہے ،۔
یہ صنعتی فضلہ ہے۔
یہ زہر ہیں جو فضا میں رچ بس چکے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ممالک جو ہم سے زیادہ ملیں ، گاڑیاں اور چمنیوں والی ملیں رکھتے ہیں ان کو یہ مسئلہ کیوں درپیش نہیں ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
دھویں کے علاج کے لئے 1878ء میں امریکہ میں ایک قانون بنا تھا کہ ہر گاڑی کے سائلنسر میں ایک ڈبہ نما پرزہ لگایا جائے گا اس سال کے بعد بننے والی ہر گاڑی میں یہ ڈبہ لگا ہوا ہے
جو پہلے پہل المونیم کی گولیوں سے بھرا ہوا یک ڈبہ ہوا کرتا تھااس کے بعد سرامک کا سوراخ دار برتن بنا جو کہ اب بھی چل رہا ہے اور کچھ کمپنیاں میٹل یعنی لوہے کی جالی سے بھی بنا رہی ہیں ،گاڑیوں کے سائلنسر میں لگے ہوئے اس ڈبے کا کیا فنکشن ہے، پاکستان میں کوئی ایک بھی مکینک نہیں جانتاہو گا۔پاکستان میں اس تکینک کا کسی کو علم ہی نہیں ہیبلکہ مکینک لوگ اس ڈبے کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں ،۔ حالانکہ اس ڈبے میں کوئی تین ہزار سے دس ہزار روپے کا سونا نکلتا ہے آج جاپان اور دیگر مہذب دنیا کو دیکھیں وہاں ہر کارخانے کی چمنی میں یہ ڈبہ لگا ہوا ہے دھوئیں کے زہر کو صاف کرنے کے اس انتظام کوانگریزی میں
catalytic converter کہتے ہیں
اور جاپانی میں شوکوبائی ، اردو میں اس کو نام دیا گیا ہے ، آلہ ردعمل یا آگ پریرک،۔
یہ آلہ پلاٹنم ، پلوڈیم اور دوڈیم نامی قیمتی دھاتوں سے فضا میں ہونے والے کیمیائی عمل سے گیسوں کے زہریلے خواص ختم کر دیتا ہے ،۔
پاکستان میں اس تکنیک کی تعلیم کی ضروت ہے اور اس تکنیک کو اپنانے کی ضروت ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اپاہج اور مفلوج ہوں گی۔ آنے والے لوگ ہماری نسل کو مجرم تصور کریں گے یعنی اس نسل کے لیئیجو آج فضا کو گندا کر رہی ہے ،۔
اس زہر بھری فضا سے سینے کے کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے، جلد اور گلے کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں، بچوں اور جوانوں میں کمزوری واقع ہو رہی ہے، سینے کا انفیکشن بڑھ رہا ہے، ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کا رش ہے، ادویہ ساز کمپنیوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں اور ارباب اختیار اپنی موج مستی میں مصروف ہیں۔ اس سے پہلے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں اور کوئی وبا ہمیں گھیر لے، ہمیں انسانی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ پھر لوگ کہتے پھریں گے کہ؛
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے