بہت عرصہ پہلے اپنے عزیزوں کے بھرپور اصرار پر میں نے ایک رات شاہ عالمی اندرون شہر میں گزاری۔ تنگ سی گلیوں میں مکان آمنے سامنے کھڑے تھے۔ جس گھر میں ٹھہری اس گھر کے آس پاس چھوٹے سے دالان کے ارد گرد گھر تھے۔ صبح سویرے ہی آنکھ کھل گئی… گلی میں فقیر مانگنے والوں کی صدائیں آنے لگیں…
ناشتہ کے بعد آس پاس کے گھروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ اس قدر شور شرابا کہ مرنے مرانے پر تیار ہو گئے…شاید ایک گھر کے بچے نے دوسرے گھر کے بچے کو شدید پیٹ دیا تھا…۔ یہاں تک کہ دونوں بچوں کے والدین ایک دوسرے کے شجرہ نصب پر انگلی اٹھانے لگے…تم تو نیچ خاندان سے ہو…بچوں کی اتنی غلط تربیت کی ہے کہ ہمارے بچوں کو مارتے ہیں اور کھیلنے بھی نہیں دیتے…میں نے کھڑکی سے سر نکال کر دیکھا تو گھروں کے درمیان چھوٹا سا دالان تھا جہاں زخمی بچے کے والدین جس بچے نے مارا تھا۔ اس کے والدین کو گندی گالیاں دے رہے تھے۔ بچے بچوں سے توں توں میں میں کر رہے تھے۔ ایک جنگ عظیم کا نقشہ تھا…یوں لگتا تھا کہ یہاں بہت بڑا فساد ہونے والا ہے۔
باقی کی کھڑکیوں میں کھڑے خاندان ایک دوسرے کی حمایت اور مخالفت میں جھگڑا کر رہے تھے…یہ تو کئی سال پہلے کا واقعہ ہے جو آج بھی مجھے یاد ہے۔
اتنے سال گزرنے کے بعد اپنے ملک میں کیا ہو رہا ہے… بھانت بھانت کی بولیاں سنی جا رہی ہیں۔ حکومت کے خیر خواہ کا کہنا تھا۔ اپوزیشن کے ہتھکنڈوں کے باوجود حکومت مدت پوری کرے گی۔
اپوزیشن رہنماؤں کا دامن داغدار ہے۔ اداروں کی تذلیل کرکے عوام کے دل نہیں جیتتے…ماضی کے لٹیرے حکمران ہمیشہ کیلئے عوام کے دلوں سے اتر چکے ہیں۔ اداروں پر تنقید کر کے سیاسی شکست کا ازالہ ممکن نہیں۔ کرپشن خلاف بھرپور جدوجہد جاری رہے گی۔
اور کسی جگہ لکھا ہے کہ ملکی پالیسیاں ملکی مفاد میں ہیں۔ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ معاشی استحکام کے اثرات عام آدمی تک پہنچائے جائیں۔ کرپشن کا خاتمہ نصب العین ہیں اور اپوزیشن دوبارہ کرسی حاصل کرنے کیلئے حکومت کو لعن تعن کرتی ہوئی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ جلد از جلد حکومت کا ایسی خبریں پڑھ پڑھ کر شاہ عالمی کے اندرون شہر کا واقعہ آنکھوں سے گزرنے لگتا ہے…جاہل خواتین صرف معمولی بات پر اس قدر جھگڑا کرر ہی تھیں کہ لڑتے لڑتے شام ہو گئی تھی…اور آج ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں…کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ مجال ہے اس ملک کی بہتری اور ترقی کیلئے کوئی بات کریں…دھڑا دھڑ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔
آجا کر پھر وہی چہرے حکومت سنبھال چکے ہیں۔ بقول غریب لوگوں کے ہم کسی نہ کسی طرح پیٹ پوجا کر لیتے تھے مگر جب سے حکومت دوبارہ آئی ہے مہنگائی کا گراف آسمان تک پہنچ گیا ہے۔ حکومت نے اتنے سبز باغ دکھائے تھے تو ہم نے پھر سے حکومت کو ووٹ دئیے کہ شاید ہم خوشحال ہو جائیں…مگر ہماری امیدوں پر پانی پھر گیا۔
اس قدر مہنگائی ہو گئی ہے کہ بمشکل دو وقت تو کیا صرف ایک وقت کاکھانا کھا لیں تو بڑی غنیمت ہے…بچوں کی پرورش تو ایک طرف دو وقت کا کھانا بھی ہم انہیں نہیں دے پا رہے اور دن بدن مہنگائی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے…. ساتھ ساتھ بھوک ننگ بھی بڑھتی جا رہی ہے…ڈکیتیوں اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بقول غریبوں کے۔
انسانوں کی انسانوں کے ساتھ زیادتی…اللہ کو پسند نہیں ہے۔ یہ اسلامی ملک ہے… سارے قوانین اسلامی ہونے چاہئیں… لوگ تو اللہ کے قہر سے بھی نہیں ڈرتے۔
مظلوم لوگوں کی باتیں ایک لحاظ سے سچ ہیں کہ اس مہنگائی کی وجہ سے کئی لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں… اور مسلسل کر رہے ہیں۔ کرسی کو مضبوط کرنا… اور اس کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دینا ‘ چلو اس بات کو بھی درست مان لیتی ہوں… لیکن جس کرسی پر بیٹھ کر اس کو مزید مضبوط کرے اور عوام کیلئے کوئی فائدہ نہ سوچے تو خدا اور اس کا رسول ان بندوں پر ناراض نہیں ہو گا…
صاحب اقتدار کو چاہیے…جوغریبوں سے وعدے کئے وہ پورے کرے اور یہ کوشش کرے کہ عوام کا دل کس طرح جیتا جائے۔ بھوک افلاس کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان ڈکیتیوں اور چوریوں سے پیٹ کا ایندھن بھر رہے ہیں… اور سفید پوش لوگ کھانے کی کمی کی وجہ سے مزاروں پر پڑے ہیں…کچھ لوگ گدا گری کر رہے ہیں۔
میرے خیال سے اس ملک میں کوئی بھی ایسا نہیں آیا جو ملک کی بہتری کے بارے میں سوچے… بس اللہ سے دعا ہی ہے کہ ہمارے رہنما عوام کی بہتری کیلئے سوچیں اور ان کی خوشحالی کے لئے سوچیں تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکے تو اللہ ان کو اجر دے گا۔
Follow Us