حکومت کو جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ میڈیا کو دباتی ہے خرم دستگیر / ظفر اقبال
ن لیگ کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ” حکومت کو جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ میڈیا کو دباتی ہے”کیونکہ حکومت صرف تعریف پسند کرتی ہے تنقید نہیں اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ حکومت کی پسند اور نا پسند کا خیال رکھے جبکہ میڈیا اپنی ضروریات اور مسائل سے حکومت کو آگاہ کر سکتا ہے تاکہ اْنہیں حل کیا جائے جبکہ حکومت میڈیا کی اکثریت کے مسائل خود آپ ہی حل کرتی رہتی ہے اور میڈیا اسے انکار بھی نہیں کرسکتا جبکہ حکومت اپنے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی خوشحال دیکھنا چاہتی ہے جبکہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ خاصہ خوشحال بھی ہو چکا ہے تاہم اسے ایک حد تک ہی خوشحال بنایا جا سکتا ہے اس لیے میڈیا کوبھی زیادہ لالچ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور چادر دیکھ کر ہی پاؤں پھیلانا چاہیے جبکہ حکومت نے پہلے ہی اس چادر کو کافی لمبائی اور چوڑائی دے رکھی ہے جبکہ حکومت کا اصل مدعا خدمت ہے چنانچہ حکومت اور میڈیا گاڑی کے دو پہیے ہیں اور دونوں کو اپنی رفتار سے چلتے رہنا چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دے رہے تھے۔
جمہوریت بہترین انتقام، والدہ نے بدلہ لینا نہیں سکھایا۔ بلاول بھٹو
چیئرمین پاکسان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ” جمہوریت بہترین انتقام، والدہ نے بدلہ لینا نہیں سکھایا ” کیونکہ جو بھی کچھ سیکھا ہے والد صاحب ہی سے سیکھا ہے جبکہ سکھانا بھی انہی کو آتا ہے اور جمہوریت کے ذریعے بدلا لینا بھی انہی نے سکھایا ہے اور ابھی ان کے سبق پورے نہیں ہوئے بلکہ کچھ سبق تو ایسے ہیں کہ میں انہیں بھول گیا ہوں اور دوبارہ سیکھنا پڑیں گے جو کہ بہت مشکل لگ رہا ہے کیونکہ انہیں سبق دہرانے کی عادت نہیں ہے اور وہ عادت کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے اور انہوں نے جمہوریت کو سب سے بڑا انتقام اس لیے کہا ہے کہ اسی نظام کے تحت سارے انتقام لیے جا سکتے ہیں بلکہ جمہوریت کے پردے میں ہی اپنے سارے الو سیدھے کئے جا سکتے ہیں جس کی بہت سی روشن مثالیں موجود ہیں اور جنہیں وہ خود بھی مزے لے لے کر بیان کرتے رہتے ہیں اور انہیں یاد کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ سنتے ہی ذہن نشیں ہو جاتے ہیں آپ اگلے روز ایک یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے۔
بے باک
یہ مینہ جی کی نثری نظموں کا مجموعہ ہے جسے گفتگو پبلیکیشنز 747 نیلم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور نے شائع کیا ہے جس کے پبلشر انیس احمد ہیں۔ اتنساب صبر اور شکر کے اس دامن کے نام جس کو تھام کر رکھنے میں ہی اللہ کی رضا ہے آغاز میں جمشید مسرور، انیس احمد اور ضمیر طالب کے مضامین ہیں جن میں مصنیفہ کی شاعری کی کھل کر تعریف کی گئی ہے اس شاعری کے استعارے اور اشارے اس قدر نازک اور لطیف ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ تیر اپنے ہدف کو چھو کر گزر گیا ہے جس کا اپنا ایک لطف اور طرحداری ہے لیکن عام قاری کا تقاضا ہے کہ تیر اگر چلایا گیا ہے تو وہ اپنے ہدف پر لگے بھی چھو کر نہ گزر جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ شاعری عام قاری کے لیے نہیں ہے۔ بہرحال ناروے میں جمشید مسرور، انیس احمد، ضمیر طالب اور فیصل ہاشمی جیسوں کی راہنمائی مینہ جی کو حاصل ہے جو ان کا بہت بڑا اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے
شیکسپیئر سے بڑا
مشہور بربطانوی ڈرامہ نگار اور شاعر جارج برنالڈ شاہ نے ایک بار کہا تھا کہ میں شیکسپیئر سے بڑا ادیب ہوں کیونکہ میں اس کے کندھوں پر کھڑا ہوں۔
اور اب آخر میں اسی مجموعے میں سے یہ نظم
دعوت
کوئی مشکل آن پڑے
پیروں تلے زمین کھچی ہوئی محسوس ہو
آسمان سر پر گرنے لگے
صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے
دھند اتنی ہو کہ اپنی آنکھ سے اپنا ہی ہاتھ دکھائی نہ دے
ہر طرف سے گھنگھور خزاں
دل میں گھر کرنے لگے
زوال ہو، برا حال ہو تب دعوت بھیجنا مجھے
دل ربا بہار میں تو کیڑے مکوڑے بھی آجاتے ہیں
آج کا مقطع
ظفر کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا