بیک وقت دو تین دروازوں سے مذاکرات نہیں چلتے۔عرفان صدیقی/

ظفر اقبال
مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر اور حکومت مذاکراتی ٹیم کے سر براہ عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ "کہ بیک وقت دو تین دروازوں سے مذاکرات نہیں چلتے "اور ہم اِس کے خلاف اِس لیے ہیں کہ کسی نہ کسی دروازے سے کامیابی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے جبکہ ہم ایسا نہیں چاہتے جبکہ ہماری خواہش ہے کہ اسی طرح پانی میں مدھانی چلتی رہے اور مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلے جس سے پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہو اگرچہ بانی پی ٹی آئی اور اْن کی اہلیہ کو سزا ہونے سے ہماری ڈھارس کافی بندھی ہوئی ہے لیکن ابھی اپیلوں کامرحلہ باقی ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے اِس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ ہماری یہ خوشی کہیں وقتی ہی نہ رہ جائے اور کوئی اپیلیٹ عدالت سارا کھوتا ہی کھو میں نہ ڈال دے کیونکہ خوشی و ہ ہوتی ہے جو مستقل ہو اور ہمیشہ قائم رہے اِس لیے ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات ایک ہی دروازے سے ہو ں کہ اْن کی کامیابی کا امکان کم سے کم رہے تاکہ ہماری اْمیدوں اور آرزوؤں کا باغ اسی طرح پھلا پْھلا رہے اور اس پر کبھی خزاں کا سایہ نہ پڑے کیونکہ جو چیز ہمیں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اْس کا مستقل اور مکمل علاج عدالتیں ہی نکال سکتی ہیں آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ٹیکنالوجی کا حصول نا گزیر، نوجوان ہی پاکستان کو تبدیل کریں گے۔یوسف رضا گیلانی
چیئر مین سینیٹ اور سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ” ٹیکنالوجی کا حصول نا گزیر، نوجوان ہی پاکستان کو تبدیل کریں گے "جس کے لیے ماشااللہ میرے دو بیٹے اور بلاول بھٹو فوری طور پر دستیاب ہیں جبکہ تلاش و جستجو پر ملک بھر سے اور بھی نو جوان دستیاب ہو سکتے ہیں،اوّل تو میرے دونوں بیٹے ہی اِس کام کے لیے کافی ہیں جن کی خدمات کا سلسلہ پہلے ہی کافی طویل ہے اور وہ ہر طرح کے تجربے سے بھی لیس ہیں اور پہلے اِس کا کامیاب مظاہرہ بھی کر چکے ہیں اور جو اِس سلسلے سے ایک کار آمد ٹیم بھی تیار کر سکتے ہیں اور اپنی مساعی جمیلہ سے مطلوبہ نتائج تسلّی بخش طور پر حاصل کر کے دکھا سکتے ہیں جبکہ میری وزارتِ عظمیٰ کے دنوں میں اْنہوں نے میرے ساتھ مل کر اکثر معاملات میں حیران کْن نتائج نکال کر دکھائے تھے اور مجھے اْن کی اہلیت اور ہنر مندی پر نہ صرف پورا پورا اعتماد ہے بلکہ سہی معنوں میں اْس پر ناز بھی ہے،اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے کیونکہ وہ ملک کے لیے ماشاء اللہ ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں اور میرے ساتھ ساتھ ملک کا نام بھی روشن کرنے کی پوری پوری تاب و تواں رکھتے ہیں آپ اگلے روزا سلام آباد میں نجی یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب کر رہے تھے۔
صرف ایک آم
علامہ اقبا ل کوذیابیطس کی شکایت پید اہوئی تو اْن کے ڈاکٹر نے انہیں آم کھانے سے سختی سے منع کر دیا جس پر علامہ صاحب بولے یہ کیسے ہو سکتا ہے آم دو تین ماہ کے لیے ہی تو آتے ہیں میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا، جس پر ڈاکٹر نے کہا کہ چلیے آپ روزانہ ایک آم کھا لیا کریں اِس کے کچھ دن کے بعد ڈاکٹر علامہ صاحب کی مزاج پرسی کے لیے آئے تو اْنہوں نے دیکھا کہ علامہ صاحب کوئی سیر بھر کر آم اپنے سامنے رکھے کاٹ کاٹ کر کھار ہے ہیں!
اور اب آخر میں یاسمین سحر کی یہ غزل
بہارو دیکھنا ہم بھی خزاں کے مارے ہیں
تمام پھول کسی آگ سے گزارے ہیں
یہ میرے چہرے کی سرخی یونہی نمایاں نہیں
خوشی سے پیر یہاں درد نے پسارے ہیں
یہ دیکھ کر مری آنکھوں میں اشک بھر آئے
بہت سے لوگ تو اپنی خوشی سے ہارے ہیں
مزہ چْبھن کا کسی اور کو نہیں معلوم
یہ سچ ہے پھولوں کے باغات سب ہمارے ہیں
سروں پہ جن کے نکل آئے سینگ دو دن میں
وہ جانور بھی مرے ہاتھ کے سدھارے ہیں
قریب لاتی ہیں ان کو ضرورتیں ان کی
وگرنہ بھائی بہن عارضی سہارے ہیں
انہی کی روشنی میں میں نہائی رہتی ہوں
مرے فلک پہ فقط چار ہی ستارے ہیں
بھنور سے لڑ کے میں کشتی نکال لائی تھی
مجھے ڈبونے کو تیار اب کنارے ہیں
وہ جس کی گنتی میں آنے سے کر رہے تھے گریز
اسی قطار میں موجود آج سارے ہیں
کسی کو بھی مری آواز تک نہ پہنچی سحر
کہیں کہیں پہ کئی نام جو پکارے ہیں
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں،ظفر
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا