شام کے مشہورشہربصرہ کے نواحی گاؤں "مجدل”میں "شہاب الدین”نامی ایک شخص رہتے تھے۔ دنیاوی گزراوقات کیلئے کوئی چھوٹا موٹا کاروبارکرررکھاتھا، لیکن ان کی وجہ شہرت "خطابت” تھی، جس کاچرچہ پورے ملک شام میں تھا۔ پہلی شادی سے اولادتھی، لیکن کسی وجہ سے دوسری شادی کرناپڑی۔ دوسری بیوی سے آخری اولاداللہ تعالیٰ نے بیٹاعطا کیا، "اسماعیل نام رکھاگیا”۔ پھریہی بچہ بڑاہوکر”حافظ ابن کثیر”کے عرفی نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوا (1301ء1373ء)۔
حافظ ابن کثیرہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، مفسر،محدث، مورخ اورشاعر۔ تاریخ نویسی میں منفردمقام حاصل کیا، جس کی عمدہ مثال البدایہ والنہایہ یا تاریخ ابن کثیرہے۔ تقریباً تین یاچارسال کی عمرمیں آپ کے والد گرامی کا انتقال ہوگیا، پھربڑے بھائی "شیخ عبدالوہاب نے دل وجان سے پرورش کی۔ فقہ میں حضرت امام شافعی ؒ کے پیروہونے کے ساتھ ساتھ علامہ ابن تیمیہ ؒ کے شاگرد بھی ہیں۔ مشہورعالم دین حافظ ابن حجر عسقلانی آپ کے شاگردہیں۔ آپ کے دورمیں مناظروں کا بہت رواج تھا، باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں مناظروں کا اہتمام کیاجاتاتھا۔ آپ نے بھی کئی مناظروں میں شرکت کی، لیکن علمی حدودوقیودکے اندررہتے ہوئے۔ عربی تاریخ نگاری کی ابتداء کب اورکیسے ہوئی؟ ہم کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے۔ ہاں البتہ تمام محققین اس بات پرمتفق ہیں کہ اسلامی تاریخ یا”فن تاریخ”اس وقت جوہمیں نظرآتا ہے، اس کاآغاز "قرآن کریم”سے ہوا۔ دورجاہلیت میں موجود عوامی روایات، جنہیں "اساطیر”کہا جاتاہے، سے لے کر دوسری صدی ہجری تک کے درمیان جو گیپ ہے اسے پرنہیں کیاجاسکتا۔ عربوں کے ہاں "علم الانساب”نے بھی ایک مستقل فن کی شکل اختیار کی۔ اورسب سے اہم "مغازی "کی شکل میں علمی انقلاب برپا ہوا۔ اس سلسلے میں ” حضرت عروہ بن زبیرؓ ” کوپہلا سیرت نگارہونے کا شرف حاصل ہے۔ پھربنوامیہ کے دورحکومت میں (دوسری صدی ہجری)سرکارؐ کی سیرت پر تحریری کام کا باقاعدہ آغازہوا۔ اس دورکی اہم ترین شخصیت محمدبن مسلم بن شہاب زہریؒ ہیں، جنہوں نے حضرت عمربن عبدالعزیز کے حکم پر "حدیث” کی جمع وتدوین کا آغاز کیا۔ اس دورمیں "تاریخ "کا کام بہت پھیل گیا۔ پھرآگے چل کرانہی روایات کی بنیاد پر "سیرت محمدابن اسحاق”، و اقدی (207ہجری، 823عیسوی)کی مغازی کے علاوہ اورمتعددکتب وجود میں آئیں۔ تیسری صدی ہجری کے آغاز میں "کاغذ” ایجاد ہوا، اورپہلاکارخانہ بغدادمیں قائم ہوا۔ وہ قدیم ترین لٹریچرومخطوطات جوآج ہماراسرمایہ ہیں، وہ اسی زمانے کی یادگارہیں۔ تیسری اورچھٹی صدی ہجری کادرمیانی دورتاریخی کتب کی بے حد کثرت کادورتھا۔ عربی تاریخوں میں "تاریخ ابن خلدون”بہت اہم ہے، اس کامقدمہ جودوجلدوں پرمشتمل ہے، اصل توجہ کامرکزہے۔ جوسارے کا ساراایک طرح کی "آپ بیتی” ہے۔ حافظ ابن کثیر کی تصانیف کی کل تعداد”19″کے قریب ہے، اور سب سے اہم "البدایہ والنہایہ”یا تاریخ ابن کثیرہے، جو16جلدوں پرمشتمل ہے۔ تاریخ ابن کثیر، دراصل یہ عربی نسخہ اس” مخطوط”کی بناء پر معرض وجود میں آیا، جوشام کے شہر "حلب”کے المدرسہ الاحمدیہ میں محفوظ تھا، لیکن محققین نے دارالکتب المصریہ کے نسخہ سے بھی تقابل کیا۔ تاریخ ابن کثیر کی نمایاں خصوصیت جو اسے دوسری کتب تواریخ سے ممتازکرتی ہے، کہ مصنف نے تاریخ نویسی کے دوران قرآن وحدیث کی مقررکردہ کڑی شرائط کو مدنظررکھا۔ اورصرف مستند واقعات کو شامل کیا۔ بہرحال تاریخ ابن کثیر محققین کی 10سالہ محنت کے نتیجے میں مصرسے شائع ہوئی۔ یہ عظیم المرتبت شخصیت زندگی کے آخری ایام میں بینائی محروم ہوگئی تھی۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔