بیتے برسوں کی طرح اپنے دامن میں ان گنت یادیں سمیٹے کار جہاں کا ایک اور سال اختتام پذیر ہو چکا ہے اور حسب روایت دنیا بھر میں سال نو کا زبردست، پرجوش اور روایتی انداز میں استقبال کیا گیا۔بیشتر ممالک میں نئے سال کی آمد پر دعائیہ تقریبات کے بعد آتش بازی کے شاندار مظاہرے کیے گئے اور آسمان پر رنگ و نور کے جلوے ساری رات نظارے بکھیرتے رہے۔یاد رہے کہ کسی بھی نئے سال (عیسوی) کے آغاز کا استقبال سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ سے کیا جاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ قریبا تمام ممالک سے ہوتا ہوا کہیں امریکہ کے جزائر میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ خیر دنیا کے کئی ممالک میں نئے سال کی آمد پر مختلف طریقوں سے جشن منایا جاتا ہے اور بعض ممالک میں تو اس موقع کی مناسبت سے بڑی دلچسپ روایات موجود ہیں جن کے ذریعے وہاں کے باشندے اپنے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں۔ بہرحال اب سال 2024ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور سال نو کا آغاز ہو چکا ہے لیکن جو گزر سو گزر گیا کے مصداق اب ہمیں ماضی کی یادوں کو بھلا کر ایک نئے اور سنہرے دور کا آغاز کرنا ہو گا۔ جہاں تک نئے سال کی آمد کا تذکرہ ہے تو ہمارے ہاں ایک اور عجیب رویہ دیکھنے کو ملتا ہے گزرے برس کے آخری ایک دو دنوں میں زیادہ تر لوگ ماضی کی یادوں کے حوالے سے ایک دوسرے کوایس ایم ایس اور پیغامات بھیجنا شروع کردیتے ہیں جن میں سال بھر کے نامکمل اور ادھورے خوابوں کا شکوہ اور یہاں تک کہ سر زد ہونے والی غلطیوں کی معافی تلافی بھی طلب کی جاتی ہے اسی قسم کے خیالات فیس بک،ویٹس ایپ،ٹویٹر اوردیگر سوشل میڈیا کی زینت بھی بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے ذرائع ابلاغ (پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا) میں بھی بیتے برس کے واقعات کو نمایاں کوریج دی جاتی ہے ۔جبکہ نئے سال کے طلوع آفتاب کے ساتھ ہی دعاؤں او ر مناجات کا ایک دراز سلسلہ چل نکلتا ہے اور امید باندھ لی جاتی ہے کہ یہ سال ہمارے لیے خوشیوں اور کامرانیوں کا سال ہوگا اور یوں پورا سال انہی نئی امیدوں کے سہارے گزار دیا جاتا ہے۔ایک طرف تو وقت منزلوں پہ منزلیں مارتا جارہا ہے لیکن دوسری طرف ہم اچھے وقتوں کی آس لگائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔۔چاہیے تو یہ تھا کہ ہم گزشتہ سال اپنے سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں پر ایک نظر ڈالتے اور اگلے سال انہیں دور کرنے کی پوری کوشش کرتے لیکن ہمارے مزاج کچھ الگ قسم کے ہیں۔ہم سرابوں کی دنیا میں جینا پسند کرتے ہیں۔اگر ہم بھی اپنے آپ کو ترقی یافتہ افراد اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سائنسی و صنعتی ترقی اور مختلف چیلنجز سے نمٹنے کے لیئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، زبانی کلامی جمع خرچ،ادھوری امنگوں اور تمناؤں سے بات نہیں بننے والی اگر ہم واقعی مستقبل کے سنہرے عزائم کو حقیقت کا روپ دینے کے لیئے مخلص ہیں تو پھر دن رات ایک کرنے اور انتھک محنت کی ضرورت ہو گی۔وگرنہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا اور زندگی یوں ہی شتر بے مہار کی طرح گزر تی جائے گی۔ خدانخواستہ اگرہم نے عملی طور پر کچھ نہ کیا تو صاحبو کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں صرف روٹین کا کیلنڈر بدلا ہے۔ یاد رہے محض ہندسے بدلنے سے کچھ بھی نیا نہیں ہونے والا،یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندسوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی سوچ کے زاویے بدلنے ہونگے۔آخر میں فیض لدھیانوی کی اس خوبصورت نظم کے چند اشعار کے ساتھ اجازت کہ
اے نئے سال بتا،تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں