fbpx
منتخب کالم

  تنخواہوں میں ردوبدل / تنویر احمد نازی


چند دن پہلے ہما ری پیاری حکومت نے معزز ممبران اسمبلی اور ججز کی تنخواہوں میں ”معمولی“ اضافہ ابھی کیا ہی تھا کہ عوام کی دم پر جیسے پاؤں آ گیا۔ اس مہنگائی کے دور میں پانچ سات لاکھ روپے کا اضافہ تنخواہوں میں اگر ہو گیا تو کون سی قیامت آگئی۔عوام کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے نہ کہ کسی کے کام میں مداخلت کرتے رہیں اور خاص طور پر معزز ممبران اسمبلی پر تو بالکل بھی اعتراض نہیں بنتا۔دیکھو ناں ہمارے معزز ممبران اسمبلی منتخب ہونے کے بعد عوام کے کسی کام میں مداخلت کرتے ہیں،ہر گز نہیں بلکہ منہ بھی نہیں لگاتے یہاں تک کہ قیمے والے نان بھی آخری دن کھلا کر دسترخوان لپیٹ لیتے ہیں ایسے میں عام عوام کو کیا حق ہے کہ وہ ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت اور آمدن و اخرجات کی تحقیق کرتا پھرے۔۔چند دنوں سے جسے دیکھو معزز ممبران کو برا بھلا کہہ رہا ہے جو اچھی بات نہیں۔یہ تو شکرہے کسی”معزز“ کی نظر سے یہ اعتراض نہیں گذرے ورنہ ان کا ”استحقاق“ مجروح ہوجانا تھا۔دیکھو ناں مہنگائی کہاں پہنچ چکی ہے ایسے میں سارا دن عوام کی خدمت میں سرشار ہمارے معزز ممبران اسمبلی اور ججز کی زیادہ تعداد عوام کی خدمت میں مصروف رہتی ہے۔یہ نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات،سردی ہو یا گرمی عوام کیلئے بے چین رہتے ہیں۔ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔یہ معزز ممبران اپنا گھربار”بیوی“ بچے چھوڑ کر پارلیمنٹ لاؤنج میں بے چین ہو رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح عوام کو سکون مل سکتا ہے۔ عوام کے تعلیم،علاج اور روزگار کے مسائل کیسے بہتر ہو سکتے ہیں یہ سوچ کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ایسے میں ان کی تنخواہوں میں اگر نمک میں ”آٹے“کے برابر اضافہ ہو گیا تو بالکل بھی قابل اعتراض نہیں۔عوام میں کچھ ”جاہل“ یہ بھی منطق لائے ہیں کہ یہ اضافہ ”کچھ“زیادہ ہے،ہم اس رویہ اور اعتراض کے بھی خلاف ہیں اور یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ یہ اضافہ بالکل مناسب ہے سچ پوچھو تو کم ہے۔۔۔وہ اس لئے کہ اگر ان معزز ممبران کی انویسٹمنٹ اور اخراجات الیکشن کے دوران ممبران اسمبلی بننے تک دیکھ لئے جائیں تو یہ اضافہ بہت کم محسوس ہو گا۔اتنے پیسے تو ایک دن میں ”کسی“ اور کام کے مل سکتے ہیں اور ایک ماہ بعد یہ تنخواہ بھی تھوڑی لگے گی کوئی غور نہیں کرتا کروڑوں لگا کر یہ دوست اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں الیکشن کے دنوں میں پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ایسے میں یہ اضافہ تو ”اونٹ“کے منہ میں زیرہ لگتا ہے رہی بات کہ حکومت کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے تو یہ عوام کے سوچنے کی بات نہیں عوام اپنے کام سے کام رکھے اور حکومت کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔

عوام بھول جاتے ہیں کہ ہما ری حکومت کے پاس بے شمار”ایم او یو“بہت ملکوں کے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ دو تین سو تودو ماہ پہلے”نئے،نئے  دبئی اور سعودی عرب سے آئے تھے اور دو دن پہلے ڈھیر سارے ”ایم او یوز“چین سے ہما ری پنجاب حکومت ”بائی ہینڈ“لے کر آئی ہے۔اب کوئی عوام سے پوچھے کہ اتنے سارے ایم او یو بغیر”یوز“کے پڑے ہوئے کوئی انڈے تو دے نہیں رہے۔یہ بے شمار ایم او یوز جو ہمارے پاس موجود تھے ہم واپس بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے ا ور ہماری سرکاری الماریوں میں مزید جگہ بھی نہیں رہی ایسے میں اگر ان ممالک نے یہ تمام ایم او یوز واپس مانگ لئے تو اچھی بات نہیں،تو مناسب یہی تھا ان کو استعمال میں لایا جائے اور ایسے میں ”معزز“ ممبران سے زیادہ ”حقدار“ اور کون ہو سکتا تھا۔اب ہوئی ناں آپ کی تسلی۔ایسے میں یہ فکر کہ تنخواہیں اتنی زیادہ بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی بالکل درست نہیں۔ہما رے قومی زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہما رے”الیکٹڈ“ معزز ممبران اور چند ”ہو نہار گھرانوں“ کی”قدر“ ایسی نہیں ہوتی جیسے ہو نی چاہیے۔چوبیس کروڑ عوام ان چند معزز گھرانوں کو نہیں پال سکتی تو بربادی کا شکوہ کرنے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے اور باقی رہ جانے والے لیڈروں کی عزت میں اضا فے کی کوشش کرتے رہنا ہمارا مقصد حیات ہونا چاہیے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے