منتخب کالم

  کہانی کہتی ہے / محمد افضل عاجز


سجاد جہانیہ ہمارے عہد کے بڑے لکھاریوں میں سے  ایک ہیں،ان کی تحریروں کا ایک زمانہ معترف ہی نہیں منتظر بھی رہتا ہے ہم خود بھی ان کی تحریروں کو آنکھوں سے چومتے اور دل میں اتارتے رہتے ہیں ان کی تحریر کسی بھی بناوٹ کے بغیر صفحات پر اترتی ہے جیسے شاعر پر شاعری اترتی ہے ان کا ایک ایک لفظ مترنم اور ایک ایک سطر اداس سی نغمگی میں گندھی ہوئی ہوتی ہے۔

نقاد تو ان کی تحریروں کو بلونت سنگھ اور احمد ندیم قاسمی کے نئے جنم سے تعبیر کرتے ہیں مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ سجاد ان دو شخصیات کے قبیلے سے ہونے کے باوجود ان کا سجادہ نشیں نہیں ہے بلکہ اپنا علیحدہ سلسلہ رکھتا ہے جس کا سربراہ یہ خود ہے۔سجاد ایک حساس لکھاری ہے اور شاید جس سماج اور ماحول میں سانس لے رہا ہے اس کے موافق نہیں ہے اسے اپنی دھرتی پہ صبح کے رنگ بہت کم اور رات کے گہرے سایے زیادہ نظر آتے ہیں دیو، چڑیل،جنات  جیسے کرداروں کے ساتھ اس کا واسطہ پڑتا رہتا ہے یہ کردار ہماری دھرتی پہ موجود ہیں مگر جس دھرتی پہ سجاد رہتا ہے وہاں یہ کردار کثرت سے ہیں سو یہ انہی کرداروں کے ساتھ اپنی کہانیوں میں آگے بڑھتا ہے۔

حیرت کی بات ہے عمومی طور پر دیو، چڑیل اور جن جیسے کرداروں کا نام لیتے ہی جسم کانپنے لگتا ہے مگر سجاد کا انداز بیان ایسا ہے کے قاری بھی ان کرداروں کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے اور سجاد کی کہانیوں کو پریوں کے دیس کی کہانیاں سمجھتے ہوئے پڑھتے چلا جاتا ہے۔

کہانی سنانا ایک فن ہے اور یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں کہانی یا تو ہماری مائیں سنایا کرتی تھیں یا پھر گاؤں کا بوڑھا بزرگ اور اگر بات کہانی لکھنے کی کی جائے تو معاملہ مزید مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ کہانی یہ نہیں ہوتی کہ ایک تھا بادشاہ اور اس کے تھے چار وزیر وغیرہ وغیرہ۔

کہانی یہ ہوتی ہے کہ جوں جوں وہ اپنے انجام کی طرف بڑھے اس کے اختتام پر ایک سبق موجود ہو اور سبق بھی وہ نہیں جو بچپن میں استاد ہمیں ڈنڈے مار کے یاد کروایا کرتے تھے بلکہ سبق وہ جو ہماری زندگی کے شب روز میں ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرے سجاد کی کہانیوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر سجاد کے ساتھ حسد رہتا ہے اور میرا بنتا بھی ہے کیونکہ میں کوشش کے باوجود ان جیسا نہیں لکھ سکتا سو ایک دن میں نے سوچنا شروع کیا کہ آخر میں سجاد سے اچھا کیوں نہیں لکھ سکتا……؟ 

نتیجہ یہ نکالا کہ یہ شخص پڑھتا بہت ہے کتاب ہمیشہ اس کی بغل میں ناشتے کی میز پہ  بستر میں سفر میں حتیٰ کے واک کرتے ہوئے اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے دنیا کے جتنے بڑے بڑے لکھاری ہیں اس بندے نے پڑھ رکھے ہیں کتاب کے حصول کیلئے اس کی کتاب دوستی پہاڑ کی چوٹی سے لیکر شاکر حسین شاکر کے کتب خانے لاہور انار کلی کے فٹ پاتھ تک ساتھ ساتھ رہتی ہے ظاہر ہے کتاب دوست انسان کبھی بانجھ نہیں رہ سکتا کتاب انسان کے اندر نجانے کتنے جہان پیدا کرتی ہے اور پھر ان جہانوں کی سیر کرتے کرتے انسان اپنا ایک علیحدہ جہان بناتا ہے بشرطیکہ وہ سجاد جہانیہ ہو –

سجاد نے بھی اپنی کتابوں اور تحریروں کے ذریعے اپنا علیحدہ جہان بنایا ہے اس جہاں کا یہ آپ خالق مختار ہے یہاں سمجھ لیجیے اپنا ایک منفرد اور علیحدہ جہان بنانا قدرت کے انعامات میں سے ایک انعام ہے کیونکہ خدا خود ایک تخلیق کار ہے مگر فیاض بھی ہے وہ جب کسی پر مہربان ہوجائے تو پھر اسے علیحدہ جہان بنانے کی توفیق دے دیتا ہے سجاد کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ قدرت نے اسے کیسے انعام سے نوازا ہے یاد رکھیے اللہ ایسا انعام کسی ایسے کو نہیں دیتا  جو اس کے انعام کو آلودہ کرتا پھرے سجاد خوش قسمت ہے کہ وہ قلم کے جہاں کو آلودہ نہیں ہونے دیتا سو کسی بھی قسم کی آلودگی سے پاک ان کی تحریروں میں سے پاکیزگی اچھل اچھل کے باہر آتی ہے اور پورے سماج کو اجلے چولے پہناتی ہے کہانی کہتی ہے سجاد کی چوتھی کتاب ہے کہانی کہتی ہے اس میں نئی کہانیاں بھی ہیں یہ کہانیاں اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہیں اور وجہ یہ ہے کہ ان کہانیوں کو دماغ سے نہیں دل سے لکھا گیا ہے دل سے لکھی ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے یہ کسی سہاگن کے بین ہیں جو وہ سماج کے سینے پر دونوں ہاتھ مار کے کر رہی ہے یہ نوحے ہیں ہمارے سماج کی اندھی روایات کے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
New currency notes in Pakistan پاکستانی کرنسی نوٹوں کا نیا ڈیزائن شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس پر کل سندھ میں عام تعطیل
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے