پچھلے کالم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا مختصر تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل کی گئی۔ قارئین آج آپ لوگوں کے ساتھ ”صاحب النعلین سرکاردوعالمؐ“ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا تذکرہ کرناچاہتاہوں۔
جناب عبداللہ بن مسعودؓ کاشماربھی سرکارؐ سے باکثرت احادیث روایت کرنے والے صحابہ میں ہوتا ہے۔ آپؓ شروع میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ ؓ عنفوان شباب میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایاکرتے تھے، لیکن جب سرکارؐ اورمخلوق خداکے” نگہبان”سے ان کاتعارف ہوا، توان کے ہوکررہ گئے، اورکبھی ان سے جدانہ ہوئے۔ بلکہ بہت سے لوگ ”رسول اللہ ؐ“ کے گھر میں ان کی کثرت سے آمدورفت دیکھ کر انہیں سرکار ؐ کے ”اہل بیت“ میں سے سمجھتے تھے۔ انہیں ”صاحب النعلین والوسادۃوالمطھرۃ“ کے لقب سے یادکیاجاتاتھا۔ کیونکہ سفرمیں سرکارؐکے نعلین مبارک،تکیے اورپانی کے مشکیزے کوسنبھالنے کی ذمہ داری ان کے پاس ہوتی تھی۔ سرکارؐ انہیں ”ابن ام عب“کہہ کرپکارتے تھے۔ سرکارؐ فرمایا کرتے تھے، ”جوشخص قرآن کریم کو بالکل ایسے پڑھنا چاہتاہے، جیسے اس کانزول ہواہے اسے چاہئے کہ وہ ابن ام عبدکی قرأت کے مطابق پڑھے“۔ جناب عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے سرکار ؐ نے فرمایا، ”مجھے قرآن سناؤ“۔ میں نے کہا، ”کیامیں آپؐ کوقرآن کو سناؤ، حالانکہ یہ آپؐ پرنازل ہوا ہے؟“آپؐ نے فرمایا، ”میرا دل چاہتا ہے کہ میں اسے دوسروں سے سنوں“۔ چنانچہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی توسرکارؐ کی آنکھوں سے آنسوبہناشروع ہوگئے۔ جناب عبداللہ بن مسعود ؓ کاجسم نحیف اورکمزورتھا۔ ایک دن رسولؐ نے انہیں ایک درخت پرچڑھ کر اس کا پھل توڑ لانے کے لئے کہا۔ اس موقع پر صحابہؓ کرام کوان کی ”پنڈلیوں“ کادبلا پن دیکھ کر ہنسی آگئی۔ سرکار ؐ نے ان سے ہنسنے کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا، ”اے اللہ کے نبیؐ، ہمیں ان کی پنڈلیوں کادبلاپن دیکھ کر ہنسی آگئی“۔ اس پر سرکارؐ نے فرمایا، ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اس کی پنڈلیاں میزان میں احدپہاڑسے زیادہ وزنی ہیں“۔ جب حضرت عمرفاروق ؓ نے انہیں ”معلم ومحتسب“بناکرکوفہ روانہ کیا، تواہل کوفہ کولکھا، ”اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں، میں نے ان کے حق میں تمہیں اپنی اوپرترجیح دی ہے، لہذاان سے خوب استفادہ کرو“۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے دورخلافت میں حضرت ابن مسعود ؓ کوفہ میں رہے اور ان کے تیارکردہ ”علمی ماحول“میں علقمہ بن قیس، اسودبن یزیدنخعی اورابراہیم بن یزید نخعی ایسے بہت سے جلیل القدر علماء اورتابعین پروان چڑھے۔
جناب عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عثمان ؓ کے دورِ خلافت میں بھی کچھ عرصہ کوفہ میں رہے۔ اس کے بعد سازشیوں کی شکایات کے بارے میں تحقیق کرنے کیلئے انہیں ”مدینے“بلایاگیا، چونکہ عمر رسیدہ ہوچکے تھے، اس لئے انہوں نے ”مدینہ“میں ہی رہنے کو ترجیح دی اور دوبارہ کوفہ نہیں گئے۔ ایک روزایک شخص ان کے پاس دوڑتا ہوا آیا اورکہنے لگا، ”میں نے رسولؐ کی خواب میں زیارت کی ہے۔ آپ ؓ سرکا رؐ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سرکار ؐنے آپ ؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا، تم نے میرے بعد بہت مصیبتیں جھیلی ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ تم میرے پاس چلے آؤ“۔ اس پر آپ ؓ نے کہا، ”یارسول اللہ ؐ، آج کے بعدمیں کبھی مدینہ کونہیں چھوڑوں گا“۔ پھرکچھ ہی دِنوں کے بعد آپ ؓ بیمار ہوئے اورانتقال فرماگئے۔ جناب عبداللہ بن مسعود ؓ 23سال تک سرکار ؐکے ہمراہ رہے۔ ان سے ”800“احادیث مروی ہیں۔