صحرائے تھر کے گاؤں جہاں کنوؤں پر تالے لگائے جاتے ہیں؟/ اردو ورثہ

تھرپارکر کے شہر ننگرپارکر سے تیس کلومیٹر مشرق میں رن کچھ کے قریب پتھاپور، گڈڑو، اٹھ کپاریو، سورا پادر اور سورے کا وانڈیا ایسے گاوں ہیں جہاں لوگ پانی چوری کے ڈر سے کنووں پر تالے لگاتے ہیں۔
ہر کنوے کی چابی گھر کے افراد کے پاس ہوتی ہے، جو اسے اپنے ساتھ رکھتے ہیں یا محفوظ جگہ پر چھپا دیتے ہیں۔
پیتھاپور گاؤں کے رہائشی عبدالرحمٰن مگنھار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہاں پانی کی بہت قلت ہے، اس لیے ہر خاندان اپنے لیے ایک کنواں کھودتا ہے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے اس پر تالا لگا دیتا ہے۔ اگر کنواں کھلا چھوڑ دیا جائے تو کوئی بھی آ کر پانی نکال سکتا ہے اور ہمارے پاس اتنا پانی نہیں ہوتا کہ دوسروں کو دے سکیں۔‘
یہاں کے لوگ کنویں زیادہ گہرے نہیں کھودتے کیونکہ زیادہ نیچے جانے سے پانی کڑوا ہو جاتا ہے۔ عام طور پر کنواں چھ سے سات فٹ تک کھودا جاتا ہے اور اس میں سے صرف سات سے آٹھ گیلن پانی نکلتا ہے جو ایک گھر کے افراد اور ان کے جانوروں کے لیے ناکافی ثابت ہوتا ہے۔
عبدالرحمٰن نے وضاحت کی: ’ہمارا ایک کنواں 15 سے 20 دن تک میٹھا پانی دیتا ہے، پھر یا تو پانی کڑوا ہو جاتا ہے یا کنواں سوکھ جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شام کو اگر میٹھا پانی نکالیں تو اگلی صبح وہی پانی کڑوا ہو چکا ہوتا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ علاقہ ڈیلٹا کے رن کچھ کے کنارے پر واقع ہے جہاں زیرِ زمین پانی کی سطح بہت نیچے ہے اور زیادہ تر پانی کڑوا ہوتا ہے اسی وجہ سے لوگ اپنے کنووں پر تالے لگاتے ہیں تاکہ ان کا محدود پانی محفوظ رہے۔ بعض اوقات رات کے وقت چور کنووں کے تالے توڑ کر پانی چرا لیتے ہیں۔
عبدالرحمٰن نے مزید بتایا: ’اگر کسی کے کنوے کا تالا ٹوٹ جائے تو صبح پورا گاؤں چور کے پاؤں کے نشانات تلاش کرتا ہے اور ان نشانات کے ذریعے اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ پھر گاؤں میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ چور کو کیا سزا دی جائے۔‘
’اگر کسی کا کنواں سوکھ جائے یا اس کا پانی کڑوا ہو جائے تو اسے فوراً دوسرا کنواں کھودنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کوئی کسی کو پانی نہیں دیتا۔ ہر کنوے پر ایک چھوٹا دروازہ لگایا جاتا ہے، جسے زنجیر اور تالا لگا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔‘
ان کے بقول: ’اگر کسی سال بارش زیادہ ہو تو پانی زیادہ عرصے تک میٹھا رہتا ہے، مگر جب بارشیں کم ہوں تو کنوے جلد خشک ہو جاتے ہیں اور پانی کڑوا ہو جاتا ہے۔ ہم بارش کا پانی بھی ذخیرہ کرتے ہیں مگر وہ زیادہ دنوں تک نہیں چلتا۔‘
یہ کنویں ان مقامات پر کھودے جاتے ہیں جہاں بارش کا پانی قدرتی طور پر جمع ہوتا ہے۔ زمین میں جذب ہونے والا یہی پانی کنویں کھود کر حاصل کیا جاتا ہے۔ پیتھاپور گاؤں میں چار ایسے قدرتی تالاب ہیں جہاں کنویں موجود ہیں۔ کانگاسرو تالاب میں 40، دوندی تالاب میں 10 اور پدمالو تالاب میں 50 کنویں ہیں۔
اس علاقے میں پانی سب سے قیمتی چیز ہے، جسے بچانے کے لیے ہر ممکن تدبیر کی جاتی ہے۔ ان گاؤں میں رہنے والی برادریوں میں کمبہار، مگنھار، کولھی، بھیل، برہمن اور بجیر شامل ہیں۔ یہ علاقہ انڈیا کی سرحد کے بالکل قریب ہے جو یہاں سے صرف چار کلومیٹر دور واقع ہے۔
عبدالرحمٰن نے کہا: ’یہاں پانی سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ اگر پانی نہ ہو تو ہم یہاں رہ بھی نہیں سکتے۔‘