پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترجمان نے ہفتے کو کہا کہ نیب نے ریئل سٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض حسین اور دیگر 32 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے۔
یہ ریفرنس کراچی میں ایک میگا پروجیکٹ کے لیے سرکاری زمینوں کی ’غیر قانونی‘ منتقلی سے متعلق ہے۔
ملک ریاض حسین اس وقت دبئی میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین اور بااثر ترین کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ نجی شعبے میں ملک کے سب سے بڑے آجرہیں۔
ملک ریاض کی زیادہ شہرت چیئرمین بحریہ ٹاؤن کی حیثیت سے ہے، جو خود کو ایشیا کی سب سے بڑی نجی ریئل سٹیٹ ڈویلپر کمپنی قرار دیتی ہے اور جس کے منصوبے اسلام آباد، لاہور، کراچی سمیت دیگر شہروں میں موجود ہیں۔
نیب نے کراچی کی احتساب عدالت میں ایک ریفرنس دائر کیا ہے، جس میں ملک ریاض حسین، ان کے بیٹے احمد علی ریاض، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سابق وزیر بلدیات اور موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن سمیت 33 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
یہ ریفرنس 2013 اور 2014 میں بحریہ ٹاؤن کراچی پروجیکٹ کے لیے سرکاری زمین کی غیر قانونی منتقلی سے متعلق ہے، جو بحریہ ٹاؤن کو دی گئی۔
نیب نے اپنے ریفرنس میں کہا ہے کہ ’ملزموں نے آپس میں ملی بھگت کر کے سرکاری زمین، جو ابتدائی طور پر 7220 ایکڑ تھی، غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن کے حوالے کی۔ یہ غیر قانونی منتقلی ایڈجسٹمنٹ، تبادلے اور انضمام کے نام پر کی گئی۔‘
ریفرنس میں کہا گیا کہ ملزموں نے ’ ایک ’منظم گروہ کے طور پر کام کرتے ہوئے قومی خزانے کو مجموعی طور پر 700 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیب نے عدالت سے درخواست کی کہ ان پر ’بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹیسز کے جرائم‘ کا مقدمہ چلایا جائے۔
یہ پیشرفت نیب کے متحدہ عرب امارات سے ملک ریاض حسین کی حوالگی کے لیے کارروائی شروع کرنے سے متعلق اعلان کے چند روز بعد شروع ہوئی ہے۔
ملک ریاض ایک دوسرے زمین سے متعلق کرپشن کیس میں بھی ملزم ہیں، جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر بھی الزامات عائد کیے گئے۔
گذشتہ ماہ ایک پاکستانی عدالت نے عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو سات سال قید کی سزا سنائی ۔ اس کیس میں الزام ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے اپنے دور حکومت میں غیر قانونی فوائد کے بدلے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے القادر ٹرسٹ کے ذریعے زمین بطور رشوت حاصل کی۔
عمران خان کا مؤقف ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ صرف ٹرسٹی تھے اور اس زمین کے سودے سے انہیں کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوا، جب کہ ملک ریاض بھی کیس میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔