fbpx
خبریں

پاکستان میں شرپسند عناصر کے ٹھکانوں اور مراکز کو نشانہ بنایا ہے: افغان وزات دفاع/ اردو ورثہ

افغان وزارت دفاع نے ہفتے کو کہا ہے کہ ’ملک کے جنوب‘ سے کی گئی کارروائی کے ردعمل میں ’فرضی لائن‘ کے دوسری جانب ’شر پسند عناصر کے بہت سے ٹھکانوں اور مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں سے افغانستان میں ہونے والے حملوں کو منظم کیا جا رہا تھا۔‘

انگریزی، پشتو، دری اور عربی زبان میں ایکس پر پوسٹ کیے گئے اس بیان میں کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا، تاہم افغانستان کے جنوب میں پاکستان واقع ہے جبکہ افغانستان دونوں ملکوں کے درمیان واقع سرحد ڈیورنڈ لائن کو ’فرضی لائن‘ قرار دیتا ہے۔

دوسری جانب افغان نیوز ویب سائٹ ’طلوع نیوز‘ نے وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ خوست اور پکتیا صوبوں میں افغان اور پاکستانی سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 19 پاکستانی فوجی جان سے چلے گئے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستانی جانب سے فائر کیے گئے مارٹر گولوں کی وجہ سے پکتیا کے ضلع ڈنڈ پتن میں تین شہریوں کی اموات بھی ہوئیں۔

افغان حکام کے اس بیان کے حوالے سے تا حال پاکستانی حکومت یا فوج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

افغان وزارت دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب 24 اور 25 دسمبر کی رات پاکستان کی جانب سے افغانستان میں فضائی حملے کی خبر سامنے آئی۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو خبر رساں ادارے ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ منگل کی رات پاکستان نے افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا کے ضلعے برمل کے چار علاقوں پر بمباری کی۔

انہوں نے کہا کہ ’مرنے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔‘

تاہم ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ یہ حملے ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر کیے گئے، جن میں جیٹ طیاروں اور ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کم از کم 20 جنگجو مارے گئے۔ ساتھ ہی انہوں نے افغان حکام کے شہریوں کی اموات کے دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

جمعرات (26 دسمبر کو) کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے منگل کے فضائی حملوں کی تصدیق کرنے سے انکار کیا تھا۔

تاہم ان کا کہنا کہ پاکستان اپنے عوام کی سلامتی کے لیے پرعزم ہے اور اس کے سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف ’ٹھوس خفیہ معلومات‘ کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں۔

اسلام آباد کابل کی طالبان حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ شدت پسند جنگجوؤں کو پناہ دیتی ہے جو بلا خوف و خطر پاکستانی علاقے پر حملے کرتے ہیں، تاہم کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے افغان حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیاں روکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی کا ناطقہ مکمل طور پر بند کرنا ہو گا اور انہیں کسی صورت پاکستان کے بے گناہ عوام کو مارنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔‘

گذشتہ روز ہی پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ افغانستان پاکستان کا برادر پڑوسی ملک ہے، اور اسے چاہیے کہ وہ ’خوارجیوں اور دہشت گردوں‘ کو پڑوسیوں پر فوقیت نہ دے۔

پاکستان کی سرحدوں پر موجود خطرات کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کیں، پاکستان کی تمام تر کوشش کے باوجود افغان سرزمین سے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

’دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان تک جاتے ہیں، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔‘




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے