امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا خلائی جہاز سورج کے انتہائی قریب ترین مقام تک جانے کے بعد بھی ’ٹھیک حالت‘ میں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آج تک کوئی خلائی مشن نہیں پہنچا۔
پارکر سولر پروب نے سورج کی سطح سے 38 لاکھ میل کے فاصلے پر اپنے سفر کو کامیابی سے مکمل کیا، جو اس کے مشن کا حصہ تھا تاکہ سورج کی توانائی پیدا کرنے والے عمل کا پتہ چلایا جا سکے، جو ابھی تک پراسرار ہیں۔
ناسا کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز نے 983 ڈگری سیلسیس تک درجہ حرارت کو کامیابی سے برداشت کیا اور سورج کے قریب سے چار لاکھ 30 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کی۔ پارکر سولر پروب زمین پر تیار کی گئی اب تک کی سب سے تیز رفتار چیز بھی ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ میری لینڈ کے شہر لوریل میں واقع جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری (اے پی ایل) میں مشن آپریشنز ٹیم کو کرسمس کے اگلے روز باکسنگ ڈے یعنی 26 دسمبر کی شام یہ سگنل موصول ہوا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
توقع ہے کہ خلائی جہاز یکم جنوری کو اپنی حالت اور تجربات کے بارے میں تفصیلی ڈیٹا واپس بھیجے گا۔
ناسا نے کہا: ’سورج کے قریب ترین مقام پر اپنے ریکارڈ توڑ سفر کے بعد، ناسا کے پارکر سولر پروب نے زمین کو ایک بیکن ٹون بھیجا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اچھی حالت میں ہے اور معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔‘
سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس مشن سے انہیں اس بات کا پتہ چلانے میں مدد ملے گی کہ مواد کس طرح لاکھوں ڈگری تک گرم ہوتا ہے، سورج کی شمسی ہوائیں کہاں سے آتی ہیں اور توانائی سے بھرپور ذرات روشنی کی رفتار کے قریب کیسے پہنچتے ہیں۔
2018 میں خلائی جہاز کے لانچ ہونے کے بعد سے، یہ سورج کے قریب آتے ہوئے بتدریج اس کے مدار میں چکر لگا رہا ہے اور اس نے زہرہ سیارے کے قریب سے پرواز کرتے ہوئے سیارے کی کشش ثقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مدار کو مزید تنگ کر لیا ہے۔
جب یہ 2021 میں پہلی بار سورج کی فضا میں داخل ہوا، تو اس خلائی جہاز نے کرونا (سورج کے بیرونی حصے) کی سرحد کے بارے میں غیر متوقع دریافتیں کیں۔
اس رپورٹ کی تیاری میں ایجنسیوں کی معاونت شامل ہے۔