fbpx
خبریں

پاکستانی بمباری سے پکتیا میں اموات ہوئی ہیں: افغان وزارت دفاع/ اردو ورثہ

افغانستان نے پاکستان پر اس کے مشرقی سرحدی علاقے پکتیا میں بمباری کا الزام عائد کیا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے اس بارے میں باضابطہ طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

افغانستان کی وزارت دفاع نے مبینہ بمباری کے ردعمل میں رات گئے جاری ایک مختصر بیان میں براہ راست  پاکستان فوج پر منگل کی شام کو صوبہ پکتیا کے ضلع برمل کے مضافات میں بمباری کا الزام عائد کیا ہے۔

بیان کے مطابق: ’اس بمباری میں عام لوگ جن میں زیادہ تر وزیرستان سے آئے ہوئے مہاجر (پناہ گزین) نشانہ بنائے گئے ہیں۔ بمباری میں بچوں سمیت شہری مارے گئے جبکہ کئی زخمی ہوئے ہیں۔‘

امریکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں ایک تربیتی مرکز کو تباہ کردیا گیا اور کچھ عسکریت پسند مارے گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حملے طیاروں کے ذریعے کیے گئے یا کسی اور طریقے سے۔

پاکستانی فوج کا کوئی ترجمان فوری طور پر ردعمل کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ لیکن اس سال مارچ کے بعد سے پاکستانی طالبان کے مبینہ ٹھکانوں پر یہ دوسرا حملہ تھا، جب پاکستان نے کہا تھا کہ افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر حملے کیے گئے تھے۔

اے پی نے مقامی رہائشیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم آٹھ افراد کی موت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان بیان میں کہا گیا کہ ’امارت اسلامی افغانستان اس وحشیانہ عمل کو بین الاقوامی اصولوں کے خلاف اور قوانین سے تجاوز سمجھتی ہے اور شدید الفاظ میں اس کی مذمت کرتی ہے۔ پاکستان کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کی من مانی کارروائیاں مسائل کا حل نہیں ہیں۔‘

وزات دفاع نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اس ’گھناؤنے فعل‘ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑے گی اور افغانستان اپنی سرحدات اور خودمختاری کی دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پکتیا بارڈر کے علاقے میں تین سے چار شدت پسندوں کے خودکش مراکز اور دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے- ان مراکز میں پاکستان پر حملہ کرنے  والے کثیر تعداد میں خودکش بمبار اور دہشت گردوں کو تربیت دے رہے تھے۔

یہ مبینہ مراکز چار بد نام زمانہ سرغنے چلا رہے تھے جن میں شیر زمان عرف مخلص یار، اختر محمد عرف خلیل،  اظہار عرف حمزہ اور شعیب احمد شامل بتائے جاتے ہیں۔

یہ حملے پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق کے کابل کے دورے کے چند گھنٹوں بعد کیے گئے ہیں جہاں انہوں نے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور تعلقات کو بہتر بنانے سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

اس دورے کے دوران صادق نے افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی اور 11 دسمبر کو اپنے چچا خلیل حقانی کے قتل پر تعزیت کا اظہار کیا۔ وہ پناہ گزینوں اور وطن واپسی کے وزیر تھے جو ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کی ذمہ داری داعش سے وابستہ ایک علاقائی گروپ نے قبول کی تھی۔

محمد صادق نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے وزیر خارجہ عامر خان متقی سے بھی ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا۔ ’دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘

اسلام آباد اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستانی طالبان ملک میں حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں، تاہم کابل اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔

اسلام آباد میں سکورٹی امور کے ایک ماہر سید محمد علی نے اے پی کو بتایا کہ منگل کے حملے ’پاکستانی طالبان کے لیے ایک واضح اور دوٹوک انتباہ ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر دہشت گرد تنظیم کے خلاف تمام دستیاب ذرائع استعمال کرے گا۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ یہ طاقت کا اندھا دھند استعمال نہیں ہے اور پاکستان کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے میں مناسب احتیاط برتی گئی ہے کہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے اور کوئی شہری جانی و مالی نقصان نہ ہو۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے