خیبر پختونخوا کی حسین وادی سوات سے تعلق رکھنے والے اختر علی (فرضی نام) سرنجز کا استعمال کرتے ہوئے مختلف نشہ آور ادویات لیتے تھے اور ایسا کرنے میں بے احتیاطی کے باعث آج وہ ایڈز جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اختر علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے سرنجز کے علاوہ نشے کی خاطر اپنے جسم پر بلیڈ کا استعمال بھی کیا۔
’انہی سرنجز اور بلیڈز کی وجہ سے میرے جسم میں ایڈز کا وائرس داخل ہوا اور اب میں اس مصیبت میں مبتلا ہوں۔‘
عالمی اداروں کی جانب سے 2023 کے آخر میں اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں اس وقت تقریباً چار کروڑ افراد ایڈز کے وائرس کے ساتھ زندہ رہ رہے ہیں۔
پاکستان میں ایڈز وائرس کے ساتھ رہنے والے 15 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد دو لاکھ 10 ہزار ہے، جن میں 41 ہزار خواتین اور ایک لاکھ 70 ہزار مرد ہیں۔ پندرہ سال سے کم عمر بچے جن کے جسموں میں ایڈز کے وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے کی تعداد 4600 ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف 2023 میں دنیا بھر میں تین لاکھ 60 ہزار افراد ایڈز کے وائرس کا شکار ہونے کے بعد اپنی جان سے گئے، جب کہ پاکستان میں یہ تعداد 11 سے 13 ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں یکم دسمبر ایڈز کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عام لوگوں میں اس موزی بیماری سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔
وادی سوات کے فیملی ہیلتھ کیئر سنٹر میں ایک سال کے دوران 105 افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی۔
سوات کے سیو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں قائم ایچ آئی وی فیملی کیئر سنٹر کے کلینکل سائیکالوجسٹ شکیل الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت ان کے پاس 300 کیسسز رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے 105 افراد گذشتہ سال کے دوران ان کے پاس آئے۔
ایڈز کے وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس سب سے زیادہ غیر ازدواجی تعلقات کے باعث پھیلتا ہے، جب کہ اس کے پھیلاؤ کے دوسرے بھی کئی طریقے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نشے کے عادی افراد ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایدز کا وائرس ایک جسم سے دوسرے اور پھر آگے پھیلتا چلا جاتا ہے۔