پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک یعنی وی پی این بلاک نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمن نے ہفتے کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وی پی اینز آج سے بلاک نہیں کیے جا رہے۔ اور ان کی رجسٹریشن میں کب تک توسیع کی جاتی ہے یہ وزارت داخلہ کا معاملہ ہے۔‘
دوسری جانب پی ٹی اے کے ایک عہدے دار نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ وی پی این کو بلاک کرنے کا درست وقت نہیں۔ ہم اسے کیسے بلاک کر سکتے ہیں؟ اسی لیے ہم وی پی این بلاک نہیں کر رہے۔‘
اس سے قبل 11 نومبر کو چیئرمین پی ٹی اے نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بتایا تھا کہ 30 نومبر کے بعد ملک میں غیر رجسٹرڈ شدہ وی پی این کام کرنا بند کر دیں گے۔
چیئرمین پی ٹی اے (ر) میجر جنرل حفیظ الرحمان نے کہا کہ ’تاحال ملک میں وی پی این چل رہا ہے۔ اسے بند نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ٹی اے کو معلوم ہے کہ آئی ٹی کی صنعت وی پی این کے بغیر نہیں چل سکتی۔ لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کاروبار، فری لانسرز اور آئی ٹی کمپنیوں کے لیے 30 نومبر تک وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا جائے۔‘
چئیرمین پی ٹی اے کے مطابق ’اگر وی پی این رجسٹرڈ ہو گا تو پھر کبھی انٹرنیٹ بند نہیں ہو گا۔ اب تک 25000 وی پی اینز کی رجسٹریشن کر لی گئی ہے۔ جن کی رجسٹریشن ہو گئی ان کا انٹرنیٹ چلتا رہے گا۔‘
واضح رہے کہ وی پی این بلاک کیے جانے سے ملک میں صارفین کے لیے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سمیت سوشل میڈیا کی متعدد ویب سائٹس اور پلیٹ فارمز تک رسائی ممکن نہیں ہو سکتی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں سال رواں کے آغاز میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد ملک میں وی پی این کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس سے قبل 2022 میں پی ٹی اے نے پاکستانی شہریوں، کمپنیوں اور سرکاری و نجی اداروں کو وی پی این رجسٹریشن کی ہدایت کی تھی، جس میں خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
حتیٰ کہ گذشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے غیر شرعی ہونے سے متعلق ایک فتویٰ بھی دیا، جسے بعدازاں ٹائپنگ کی غلطی قرار دے کر ختم کر دیا گیا۔
وی پی این کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ایڈیشنل ڈی جی اور ماہر امور آئی ٹی عمار جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہا کہ وی پی این دو لوگوں یا دو نیٹ ورکس کے مابین ورچوئل ٹنل بن جاتا ہے، جس میں بیرونی مداخلت نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا تھا کہ وی پی این اتنا ہی کام کرتا ہے لیکن اس میں مزید سکیورٹیز ہوتی ہیں جن کو ایس ایس ایل یعنی سکیور ساکٹس لیئر کہا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ کوئی شخص یا ادارہ اپنا وی پی این بھی بنا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اجازت نہیں دی جا رہی۔