fbpx
خبریں

مغوی لیفٹننٹ کرنل اور رشتہ دار بحفاظت گھر پہنچ گئے: آئی ایس پی آر/ اردو ورثہ

پاکستان فوج کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے اغوا کیے جانے والے لیفٹینٹ کرنل اور ان کے تین رشتہ داروں کو ’ بحفاظت اور غیر مشروط‘ طریقے سے رہا کرا لیا گیا ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ہفتے کو جاری بیان کے مطابق مغوی لیفٹینٹ کرنل خالد امیر اور ان کے رشتہ داروں کی رہائی علاقے کے معززین اور قبائلی عمائدین کی مدد سے باحفاظت طریقے سے عمل میں آئی۔

آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا کہ تمام مغوی حفاظت کے ساتھ گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔

چند روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس نے بتایا تھا کہ مسلح افراد نے تحصیل کلاچی میں پاکستان فوج کے ایک لیفٹینٹ کرنل کو اپنے دو بھائیوں اور بھانجے سمیت اغوا کر لیا۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان کے کلاچی تھانے کی حدود میں بدھ (28 اگست) کو شام چھ بجے کے قریب پیش آیا اور ان افراد کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ فوجی افسر کے والد کی فاتحہ خوانی کے لیے مسجد میں بیٹھے تھے۔

پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ’یہ چاروں افراد مسجد میں فاتحہ خوانی کے لیے بیٹھے تھے کہ مسلح افراد انہیں اسلحے کے زور پر اغوا کر کے لے گئے۔‘

پولیس کے مطابق ان مغوی افراد میں شامل فوجی افسر کا ایک بھائی کنٹونمینٹ بورڈ راولپنڈی ممیں اسسٹنٹ کمشنر جبکہ دوسرا بھائی نادرا میں ملازم ہے۔

ڈی آئی خان پولیس کنٹرول روم کے انچارج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لیفٹننٹ کرنل، کنٹونمینٹ بورڈ کے اسسٹنٹ کمشنر اور نادرا کے ملازم کو بھانجے سمیت مسجد سے اغوا کیا گیا ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ’یہ چاروں افراد مسجد میں فاتحہ خوانی کے لیے بیٹھے تھے کہ مسلح افراد انہیں اسلحے کے زور پر اغوا کر کے لے گئے۔‘

تھانہ کلاچی کے ایک اہلکار نے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تینوں سرکاری افسران اس علاقے میں مستقل نہیں رہتے تھے لیکن والد کی فاتحہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ ایک آپریشنل ایریا ہے اور اسی کے قریب کوئٹہ ژوب کی سرحد ملتی ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر افغانستان کی سرحد ہے۔‘

کلاچی کا علاقہ امن و امان کے لحاظ سے مخدوش سمجھا جاتا ہے اور اسی علاقے کے تھانے کے ایک اہلکار نے کچھ عرصہ پہلے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ شام کے بعد پولیس کے لیے بھی باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ شدت پسندی اس علاقے میں بڑھ گئی ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان شدت پسندی کے لحاظ سے شمالی و جنوبی وزیرستان کے بعد خیبرپختونخوا کا تیسرا سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے، جس کی مختلف وجوہات میں سے ایک اس ضلعے کا محل وقوع ہے۔

 شمالی و جنوبی وزیرستان سے متصل ہونے کی وجہ سے یہاں شدت پسندی کے کئی واقعات ہو چکے ہے۔

محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق ڈی آئی خان میں 2023 میں مجموعی طور پر 98 شدت پسندی کی کارروائیاں ہوئیں، جن کے دوران سکیورٹی فورسز کے 21 اہلکار جان سے گئے تھے۔

اسی طرح شدت پسندی کی بڑی کارروائی کارروائی دسمبر 2023 میں درابند کے ایک فوجی کیمپ میں ہوئی تھی، جہاں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں پولیس کے مطابق کم از کم 23 فوجی اہلکار جان سے گئے تھے۔ اس حملے میں شدت پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی کیمپ سے ٹکرا دی تھی۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے