اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر سابق سیکریٹری دفاع، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر عائد جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے 2018 میں عائد کیے گئے جرمانے بحال کر دیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے آج لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں حکومتی اپیلوں کی سماعت کی۔
عدالت نے سنگل بینچ کی جانب سے افسران پر کیے گئے جرمانوں کے فیصلے کے خلاف وفاق کی تمام انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کردیں۔
ہائی کورٹ نے لاپتہ فرد ساجد محمود کی اہلیہ کی درخواست پر سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کا 2018 کا فیصلہ برقرار رکھا۔
کیس کی کارروائی میں مزید کیا ہوا؟
بدھ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’جی ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کوئی خوشخبری ہے، لاپتہ افراد واپس آ گئے؟‘ تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق تاحال پیش رفت نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’کئی کئی سال گزر گئے ہیں، کہاں ہیں لاپتہ افراد، ہر بار آپ آ کر کہہ جاتے ہیں کہ پیش رفت ہو رہی ہے، کتنا وقت دیں آپ کو آپ ہر بار وقت مانگ لیتے ہیں، پہلے کئی بار اٹارنی جنرل پیش ہو چکے، خالد جاوید خان بھی پیش ہو چکے، ہم کیا کریں پھر جو جرمانہ عائد ہوا اسے دگنا کر دیتے ہیں، پھر وزیر اعظم کو بلا لیں؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت نے کمیٹی بنائی ہے اور وہ حتمی مرحلے میں ہے، کچھ وقت دے دیں، تمام کوششیں کی جا رہی ہیں، کسی بندے کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ کس ادارے کے پاس ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا، ’ہمارے لیے اپیلوں پر فیصلہ کرنا بہت آسان ہے جو جرمانے ہو چکے وہ ڈبل کر دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر سیکریٹری اور آئی جی اپنی تنخواہ سے جرمانہ دیتا جائے گا یہ بڑا آسان طریقہ ہے، ہم تو سات سال سے یہ کیس لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کچھ ہو جائے، میرا خیال ہے اب یہی کرنا پڑے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مقدمات میں اٹارنی جنرل خود پیش کیوں نہیں ہوتے؟ کیا اس سے زیادہ اہم بھی کوئی معاملہ ہو سکتا ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ ’فیڈریشن نے شاید حلف اٹھایا ہوا ہے کہ عدالتوں کی معاونت نہیں کرنی، اب آپ عدالتوں کو اس حد تک لے آئے ہیں کہ اب آپ کی کسی بات پر یقین نہیں کرنا۔‘
جبری گمشدہ افراد کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’حکومت جبری گمشدہ افراد کمیشن کے لیے کیا کرنا چاہتی ہے جو کسی کام کا نہیں ہے؟ کیا کمیشن کے چیئرمین اور ممبرز کو تنخواہیں بھی ملتی ہیں؟ کیا یہ جبری گمشدہ افراد کمیشن اور قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہے؟‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ ’اس حوالے سے تو کمیشن نے بتانا ہے۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’کمیشن کیا بتائے گا؟ آپ حکومت ہیں آپ بتائیں گے۔‘ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کمیشن نے ساڑھے دس ہزار میں سے ساڑھے سات ہزار کیسز نمٹائے۔‘
چیف جسٹس نے یہ جواب سن کر کہا ’یہ اعداد و شمار لے جا کر ڈی چوک پر لگا دیں یہ بس اعداد و شمار ہی ہیں۔‘
کیس کی سماعت کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ درخواست سنگل بینچ میں کیس رجسٹرار آفس مقرر کرے گا۔
کیس کا سیاق و سباق کیا ہے؟
مدثر نارو اور شہری محمود ساجد سمیت لاپتہ افراد کے یہ کیسز گذشتہ سات سالوں سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
شہری ساجد لاپتہ ہوئے تھے تو ان کی اہلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے لاپتہ مدثر نارو کے ساتھ اس کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے 2018 میں فیصلہ دیا تھا، جس میں عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر 2018 کے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ، چیف کمشنر ذوالفقار حیدر،
آئی جی اسلام آباد خالد خان خٹک اور ڈپٹی کمشنر مشتاق احمد کو ایک ایک لاکھ جرمانہ کیا تھا۔
جبکہ ایس ایچ او پولیس قیصر نیاز کو تین لاکھ روپے کا جرمانہ کیا گیا تھا، جس کے خلاف وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی تھی۔