سندھ کے ضلع بدین کی تحصیل ٹنڈو غلام علی کے چھوٹے سے گاؤں میں ’پہلی مرتبہ‘ ایک مقامی زمیندار نے اپنی زمین پر ایک فیکٹری قائم کرکے وہاں کیلے کے تنے سے فائبر بنانے کے لیے مشینیں نصب کی ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کی فراہمی کا بھی باعث ہے۔
کیلے کے تنے کو پہلے جلا دیا جاتا تھا، جو ماحول کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہے، تاہم مقامی زمیندار آغا سمیع درانی نے ماحولیاتی آلودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تقریباً 600 ایکڑ زمین پر کیلے کے تنے کو جلانے کی بجائے اس سے فائبر بنانے کے لیے ایک فیکٹری قائم کردی ہے، جہاں سے روزانہ کئی من فائبر نکلتا ہے، جسے کراچی اور حیدرآباد سمیت پاکستان کی مختلف فیکٹریوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔
اس کے لیے مزدور کیلے کے باغات سے کیلے کو الگ کرکے تنے کو فیکٹری تک پہنچاتے ہیں، جہاں پر تنے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس کی پٹیاں الگ کر کے مشینوں میں ڈالا جاتا ہے، جس کے بعد وہ فائبر کی شکل میں نکلتا ہے، جسے تقریباً 24 گھنٹے سکھانے کے بعد مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اس فائبر سے پیڈز، ٹشو پیپر، پلاسٹک کے گلاسز، کپڑا اور دیگر چیزیں بنائی جاتی ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیکٹری کے مالک آغا سمیع اللہ درانی نے بتایا کہ ان کے کیلے کے اپنے باغات ہیں، جن سے فائبر بنانے کے لیے انہوں نے یہ فیکٹری قائم کی ہے۔
بقول سمیع اللہ درانی: ’میں فائبر کو اتنا آگے لے کر گیا ہوں کہ مجھ سے ٹیکسٹائل ملوں والے اور بڑی بڑی کمپنیوں نے رابطہ کیا، وہ پہلے سیمپل لے گئے اور پھر انہوں نے مجھ سے بات چیت کی کہ وہ دھاگہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سندھ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میری طرح کام کر رہے ہیں۔ کسی کے پاس ایک مشین ہے تو کسی کے پاس دو مشینیں ہیں۔ وہ ڈیزل انجن پر کام کر رہے ہیں اور انہیں کافی مشکلات بھی ہوئی ہیں۔‘
آغا سمیع کے مطابق: ’میں ماحول کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے یہاں پلانٹ لگانے سے یہاں کے لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ وہ بہت خوش ہیں، میں ان کو وقت پر تنخواہ دیتا ہوں۔‘
آغا سمیع درانی کی فیکٹری میں کام کرنے والے عمران علی نے بتایا کہ فیکٹری میں سات مشینیں ہیں اور ایک بندہ تقریباً 120 کلو فائبر نکالتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے کیلے کے تنے کو جلایا جاتا تھا، جس سے ماحول خراب ہوتا تھا، لیکن اب ماحول بھی بہتر ہے اور فائبر بھی بن رہا ہے۔‘