بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا ہے کہ وہ صوبے کے مسائل کے حوالے سے تمام متعلقہ افراد پر مشتمل ایک جرگہ بلائیں گے، جس میں پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں میر ضیا اللہ لانگو نے بلوچستان کی سیاسی و سکیورٹی صورت حال اور لاپتہ افراد سمیت دیگر معاملات پر گفتگو کی۔
ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے لیے ایک پیج پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے باہر بیٹھے رہنماؤں سے بات چیت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے ایک جرگہ بلا رہے ہیں اور پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کے عمل کو آگے لے کر جائیں گے۔
بقول ضیا اللہ لانگو: ’حکومت مذاکرات کے حوالے سے ایک پیج پر ہے کہ سب سے بات چیت ہو۔‘
صوبائی وزیر داخلہ نے انٹرویو کے دوران بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی کارکردگی پر ’عدم اطمینان‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ملک کے مجموعی حالات کی حقیقت سے انکاری ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بلوچستان کے عوام کو یہ باور کرواتے ہیں کہ ہم الیکشن اور سیاسی عمل میں اس لیے حصہ لے رہے ہیں کہ قومی و ملکی مفادات پر کسی بھی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘
لاپتہ افراد کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا اللہ لانگو نے بتایا کہ جب وہ وزیر داخلہ بنے تو وہ خود لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنماؤں ماما قدیر بلوچ، نصراللہ بلوچ اور دیگر خواتین سے جا کر ملے اور انہیں اپنے دفتر میں مدعو کیا۔
بقول میر ضیا لانگو: ’وہ ان کے دفتر آئے اور انہوں نے 450-400 افراد کی فہرست دی، جن میں 350 سے 400 کے قریب لوگ واپس ہو گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پھر سردار اختر مینگل نے ایک اور فہرست پیش کی جس میں صرف نام تھے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ان حکومتی اعداد و شمار سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے کام کرنے والے مطمئن نہیں اور اس موقف کو رد کرتے ہیں۔
چمن بارڈر کی بندش کے حوالے سے صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’یہاں آمد و رفت کے عمل کو نگرانی کے ساتھ موثر بنایا جائے گا۔ یہاں سے دہشت گرد آتے ہیں، اس کا اعتراف افغانستان کر چکا ہے۔‘
بدھ کو ضیا اللہ لانگو نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دو اہم کمانڈروں نصر اللہ عرف مولوی منصور اور ادریس عرف ارشاد کو گرفتار کر کے بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے اڈے بنانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران گرفتار کمانڈر نصر اللہ کا ریکارڈ شدہ بیان بھی سنوایا گیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انڈین ایجنسی ’را‘ نے ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا الحاق کروایا جبکہ ٹی ٹی پی کو موجودہ افغان حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔
انٹرویو کے دوران ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ ’موجودہ بجٹ میں تمام مکاتب فکر کے لیے پیکجز ہیں۔‘
بقول ضیا اللہ لانگو: ’100 فیصد لوگوں یا اراکین کو مطمئن نہیں کرسکتے۔ یہاں اراکین کی خواہش پر، تجاویز پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکتا‘۔
واضح رہے کہ بجٹ کے حوالے سے اسمبلی اجلاس میں نیشنل پارٹی کے صدر، سابق وزیر اعلیٰ و دیگر اراکین اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) عوامی کے اسد اللہ بلوچ نے بجٹ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار پریس کانفرنس کے ذریعے کیا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے ضیا لانگو نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’وہ فی الحال وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ساتھ ہیں‘۔