اب یہ رائے متروک ہو چکی ہے کہ بچوں کو مکمل طور پر گھر ہی میں تعلیم دی جانی چاہئے ۔ لاک اور روسو جیسے بڑے فلسفیوں نے اپنی کتابوں میں اس نقطہ نظر کی تائید کی تھی اور سکندر اعظم، ہنی بال، نیز مشهور برطانوی مفکر جان سٹورٹ مل کی تعلیم و تربیت گھر ہی میں ہوئی تھی۔ بات یہ ہے کہ اس قسم کی تعلیم صرف امیروں کے لئے ہی ممکن ہے اور محض اس حوالے سے ہمیں اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ مسئلہ جائز طور پر بحث طلب ہے کہ گھر اور سکول میں کیا رشتہ ہونا چاہئے اور یہ کہ بچوں کو کس عمر میں سکول جانا چاہئے۔
یورپ کے اکثر ملکوں نے اس رائے کو تسلیم کر لیا ہے کہ محنت کشوں کے اکثر بچوں کو چھ سے تیرہ چودہ برس تک کی عمر کے دوران سکول جانا چاہئے۔ اس طبقے کے زیادہ قابل لڑکوں اور لڑکیوں کو وظائف دے کر اس عمر کے بعد بھی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جہاں تک آسوده حال والدین کا تعلق ہے، ان کے بیٹے اور بیٹیاں تو خیر زیادہ عرصے تک سکول جاتے بھی ہیں۔ اس بارے میں اتفاق رائے موجود نہیں کہ عمومی تعلیم کو کس عمر کی حد تک جاری رکھنا پسندیدہ ہے۔ اسی طرح یہ معاملہ بھی طے شدہ نہیں کہ بچوں کی تعلیم کے لئے عام سکول بہتر ہیں یا رہائشی سکول ۔ لگتا ہے کہ یہ ایک عام رائے بن چکی ہے کہ جس شے کو ہم اچھا گھر کہتے ہیں وہ بورڈنگ سکول سے بہتر ہے۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ گھروں کا ایک غیر متعین تناسب ایسا بھی ہے جن کو ہم اچھے گھر نہیں کہہ سکتے۔ میرے خیال میں یہ ایک مشکل مسئلہ ہے کیونکہ اس کے مختلف پہلوؤں پر ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ اصل میں اس مسئلے کے دو حصے ہیں۔ اَوّل یہ کہ بچے کو کس عمر میں سکول جانا چاہئے اور دوئم یہ کہ آیا اس سکول کو عام اسکول ہونا چاہے یا رہائشی سکول ۔ آئیے ہم باری باری ان سوالات پر غور کریں۔
اسکول جانے کی عمر کا آغاز کب ہو ؟ بچے کو کس عمر میں سکول جانا شروع کرنا چاہئے؟ اس کے جواب کا دارومدار لازمی طور پر گھر پر ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب گھر کی جغرافیائی نوئیت نہیں بلکہ اس کی اخلاقی یا نفسیاتی نوعیت ہے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ گاؤں میں رہتا ہے تو رسمی تعلیم کے لئے ضروری ہونے والی عمر سے پہلے وہ اپنا وقت خوش باشی سے اور مفید طور پر کھیل کود میں جانوروں کا مشاہدہ کرنے، بھوسے کی تیاری کو دیکھنے ، فصلیں کاٹنے، انہیں صاف کرنے اور حل جوتنے میں صرف کر سکتا ہے۔ شہری بچے کے لئے معاملہ بالکل مختلف ہے جس کے ماں باپ تنگ و تاریک گھروں میں رہتے ہیں۔ اس کے لئے سکول آزادی کی فضاؤں میں جانے کا نام ہے جہاں اسے حرکت کی ، شور مچانے کی اور دوست بنانے کی آزادی میسر آتی ہے۔ بارھا مجھے طبی پیشے سے مسلک ایسے افراد سے میل جول کا موقع ملا ہے جو اس لئے نرسری سکولوں کی مخالفت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ہر سکول کو محض ایسی جگہ ہونا چاہئے جہاں مقررہ اسباق پڑھائے جاتے ہیں۔ مناسب قسم کے نرسری سکول میں پڑھانے کا کام صرف اسی قدر ہونا چاہئے جتنا کہ بچوں کو بہلانے اور انہیں متوجہ رکھنے کے لئے ضروری ہو۔ گویا بچوں پر بوجھ لادنے کے بجائے نرسری سکول کو چاہئے کہ وہ بچوں کو اس بے جا نگرانی اور مداخلت سے نجات ولائے جو چھوٹے گھروں میں کم و بیش ناگزیر ہوتی ہے۔
غریب والدین کے شہری بچوں کی بعض ایسی جسمانی اور نفسیاتی ضروریات ہوتی ہیں جن کو گھر پر پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے پہلی ضرورت تو روشنی اور ہوا کی ہے۔ تعلیم کی ایک ماہر خاتون مارگریٹ میکمل کا مشاہدہ یہ ہے کہ اس کے نرسری سکول میں داخلہ لینے والے بہت سے بچے جب پہلے پہل آئے تھے تو سوکھے کے روگ کا شکار تھے۔ لیکن کھلی ہوا میں رہنے سے ان کی یہ بیماری جاتی رہی۔
دوسری ضرورت کا تعلق مناسب خوراک سے ہے۔ اس قسم کی خوراک زیادہ مہنگی نہیں ہوتی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ گھر ہی میں مہیا کی جا سکتی ہے۔ جس بات نے مناسب خوراک کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے وہ لاعلمی اور کھانے پکانے کے معاملے میں قدامت پسندی کا رواج ہے۔
تیسری ضرورت کشادہ فضا ہے جس میں بچے کھیل کود سکیں۔ بہت غریب لوگوں کے بچوں کو اس قسم کی جگہ گلی کوچوں میں ملتی ہے جب کہ دوسروں کو ایسا کرنے کے ممانعت ہوتی ہے۔ بہر طور گلیاں کھیلنے کے لئے بہترین جگہ تو ہرگز نہیں ہیں ۔۔۔ چوتھی ضرورت غل غپاڑہ مچانے کی ہے۔ بچوں کو شور مچانے سے روکنا زیادتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اگر کسی گھر میں بہت سے بچے مل کر شور مچانا شروع کر دیں تو بڑوں کے لئے وہ گھر جہنم بن جاتا ہے۔ بچوں کی پانچویں ضرورت ہم جولی بچوں کے ساتھ میل ملاپ ہے۔ یہ ضرورت بچہ عمر کے دوسرے برس کے خاتمے کے قریب محسوس کرنے لگتا ہے۔ پھر یہ ضرورت تیزی سے بڑھنے لگتی ہے۔
چھٹی ضرورت والدین کی توجہ و دلچسپی سے نجات پانا ہے۔ امیر لوگوں کے بچوں کو اس کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ غریبوں کا معاملہ مختلف ہے۔ غریب والدین کو محنت مزدوری سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ہر وقت بچوں کے سر پر سوار رہیں۔ ساتویں ضرورت ایسا ماحول ہے، جس میں بچے کا دل بہلانے کے لئے مناسب ساز و سامان موجود ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس ماحول کو مصنوعی طور پر محفوظ بھی بنا دیا گیا ہو۔ مثلاً اس میں پتھر کی سیڑھیاں، نوکدار کونے یا قیمتی نازک چیزیں موجود نہ ہوں۔ جن بچوں کی چھ برس کی عمر تک یہ تمام ضرورتیں پوری نہ ہو سکیں، وہ عام طور پر بیمار پست حوصلہ اور بے چین رہتے ہیں۔
بڑے شہروں میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے مسئلے پر جدید حکومتوں نے ابھی تک مناسب توجہ نہیں دی ہے۔ اس معاملے میں صرف وی آنا کی میونسپلٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ بڑی حد تک اس مسئلے کا تعلق فن تعمیر سے ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ شہروں میں زیادہ غریب لوگوں کے علاقوں میں رہنے سہنے کے کمرے ایک کھلے صحن کے تین اطراف میں بنائے جائیں اور جنوب کی کھلی جگہ کو دھوپ کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ مرکزی جگہ بچوں کے لئے مخصوص ہوئی چاہئے جو وہاں بڑوں کی نگرانی میں کھیلیں کو دیں اور کھانا کھائیں اور سونے کے لئے والدین کے پاس واپس چلے جائیں۔ اس سے ایک طرف تو ماؤں کو سکون ملے گا اور بچوں کو بہت زیادہ فائدہ بھی پہنچے گا۔ تاہم ہماری موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہم الگ تھلگ گھروں میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہماری یہی خواہش فن تعمیر پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
میرے خیال میں یہ بات لازماً فرض کی جا سکتی ہے کہ امیر لوگ اپنے بچوں کو اس قسم کی مشترکہ کھیل کے میدانوں کی خوشیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دیں گے۔ تاہم غریب لوگوں کے بچوں کی طرح امیروں کے بچوں کو بھی دن کا بیشتر حصہ آزادی کی فضاؤں میں بسر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی شہری مکان چاہے وہ کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو وہ بچوں کی صحت مند ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے درکار تمام ساز و سامان مہیا نہیں کر سکتا۔ بڑی بڑی فیسیں ادا کرکے سماجی امتیاز کو اگر چہ برقرار رکھا جا سکتا ہے، تاہم ہر سماجی طبقے کے لئے کسی نہ کسی قسم کا نرسری سکول ضرور ہونا چاہئے۔
اب تک ہم اس امر پر غور کرتے آئے ہیں جس کو سکول جانے سے پہلے کا برس کہا جاتا ہے۔ جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں، بورڈنگ سکولوں کے حق میں دلائل بھی مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہے ہیں۔ مضبوط ترین دلیل تو یہ ہے کہ بورڈنگ سکول دیہی علاقوں میں تو قائم ہو سکتے ہیں، جہاں انہیں بہترین ماحول میسر آتا ہے۔ اس کے برعکس عام سکول تو شہروں کے اندر ہی قائم ہو سکتے ہیں۔ ایک اور دلیل جو تمام نہ سہی لیکن اکثر صورتوں میں صادق آتی ہے یہ ہے کہ گھر غالباً ایسی جگہ ہے جس میں بچے کے اعصاب پر دباؤ پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مثلا ممکن ہے کہ والدین آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوں، ماں زیادہ حساس ہو، باپ سخت گیر ہو یا پھر زیادہ لاڈلا بھائی یا بہن ہو جو دوسرے بچوں کے لئے حسد کا سبب بنتے ہوں۔ ماں باپ میں سے کوئی ایک زیادہ ہی مہربان ہو سکتا ہے۔ خیر کسی نہ کسی بہانے سے گھر اکثر اوقات زیادہ ہی جذباتی جگہ ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں بچوں کو پرسکون اور خاموش زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ یعنی ایسی زندگی جس میں خوشیاں اور سرگرمیاں تو ہوں لیکن شدید قسم کے جذبات کم ہی ہوں۔ ان باتوں کے برخلاف میرے خیال میں ہمیں لازماً یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ بچے کے لئے ماں باپ کی کسی حد تک عقل مندانہ محبت اچھی ہوتی ہے اور وہ بچے کو تحفظ اور انسان ہونے کی حیثیت سے اس کی قدر و قیمت کا احساس دلاتی ہے۔ ان دو متضاد باتوں کے مابین توازن قائم کرنا آسان نہیں ہے۔
سکول اور گھر کے موازنے کا مسئلہ ایسا نہیں کہ اس پر تجریدی انداز میں بحث کرنا سہل ہو۔ بات یہ ہے کہ اگر ہم مثالی گھروں کا موازنہ حقیقی سکولوں سے کریں تو پلڑا ایک طرف کو جھک جاتا ہے اور جب مثالی سکولوں کا موازنہ حقیقی گھروں سے کریں تو دوسری طرف کو پلڑا جھک جاتا ہے۔ خیر میرے اپنے ذہن میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ مثالی سکول مثالی گھر سے بہتر ہوتا ہے۔ کم از کم مثالی شہری گھر سے تو وہ ضرور ہی بہتر ہوتا ہے کیونکہ اس میں زیادہ روشنی، ہوا، نقل و حرکت کی آزادی اور ساتھیوں کی زیادہ رفاقت میسر آتی ہے۔ تاہم میری اس بات سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ حقیقی سکول بھی حقیقی گھر سے بہتر ہوتا ہے۔ والدین کی اکثریت اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے اور یہ محبت ماں باپ کی طرف سے بچوں کو پہنچائے جانے والے نقصان کی حدود طے کرتی ہے ۔ تاہم تعلیمی حکام کو بچوں سے پیار نہیں ہوتا۔ ہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ قومی جذبے سے سرشار ہوں۔ لیکن اس جذبے کا ہدف صرف بچے نہیں ہوتے بلکہ پوری قوم ہوا کرتی ہے۔ یہ تو ہوئی بہترین صورت بدترین صورت یہ ممکن ہے کہ تعلیمی حکام ایسے سیاست دان ہوں جو منافع کے لئے تگ و دو کر رہے ہوں۔
آج کے زمانے میں گھر نوجوانوں کی ذہنیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کردار گو مکمل طور پر اچھا نہیں ہے، لیکن اس کردار سے بہتر ضرور ہے جو ریاست اس وقت ادا کرتی جب سب بچے اس کی تحویل میں ہوتے۔ گھر بچوں کو پیار محبت کا تجربہ عطا کرتا ہے اور ساتھ ہی ایسی چھوٹی جماعت کا تجربہ بھی مہیا کرتا ہے جس میں بچے کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
اس طرح گھر بچے کو دونوں اضاف کے اور مختلف عمر کے افراد نیز بالغ زندگی کی متنوع مصروفیات کے تجربے سے بھی روشناس کراتا ہے۔ اس لحاظ سے گھر سکول کی مصنوعی سادگی سے پنجات دلانے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔
گھر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ افراد کے درمیان تنوع کو برقرار رکھتا ہے۔ اگر ہم سب نام ایک جیسے ہوتے تو پھر شاید حکام کے لئے اور اعداد و شمار جمع کرنے والوں کے لئے بہتر ہوتا۔لیکن اس صورت میں زندگی بھدی اور غیر دلچسپ ہوتی اور اس کے نتیجے میں بہت ہی غیر ترقی پذیر معاشرہ معرض وجود میں آتا۔ موجودہ زمانے میں گھروں کے باہمی فرض افراد کے باہمی امتیازات میں بڑی حد تک شدت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس قسم کا زیادہ فرق سماجی استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ البتہ تعاون کی بہترین صورت کے لئے قدرے فرق کا موجود ہونا لازمی ہے۔ آرکسٹرا کو ہی لیجئے۔ اس کے لئے مختلف صلاحیتوں کے حامل اور مخصوص حدود کے اندر مختلف ذوق رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سب لوگ ایک ہی ساز بجانے پر اصرار کرنے لگیں تو آرکسٹرا کی موسیقی محال ہو جائے۔ سماجی تعاون کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس کے لئے ذوق اور میلانات میں فرق درکار ہوتا ہے۔ اب اگر بچوں کو مکمل طور پر ایک جیسے اثرات کے ماتحت رکھا جائے تو پھر اس قسم کے فرق کو نقصان پہنچتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات افلاطون کے اس نظریئے کے خلاف ایک مضبوط دلیل ہے کہ تمام بچوں کی پال پوس ریاست کے ذریعے ہونی چاہئے۔
ہماری موجودہ دنیا میں خاندان کے علاوہ دو اور ادارے ہیں جو نوجوانوں سے سروکار رکھتے ہیں۔ ریاست ان میں سے ایک ہے جب کہ دوسرا ادارہ مذہب یا چرچ ہے۔ برطانیہ میں صورت حال یہ ہے کہ اس کے مزدوروں کے لگ بھگ دو تہائی بچوں کی تعلیم حکومت کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کہ بقیہ ایک تہائی بچوں کی تعلیم مختلف مذہبی اداروں اور خصوصاً انگلیکن اور رومن کیتھولک اداروں میں ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں خوشحال خاندانوں کے بچے زیادہ تر انگلیکن ماحول میں تعلیم پاتے ہیں۔ لڑکیوں کے اکثر "بہترین سکول انگلیکن یا کیتھولک ہیں۔ بالائی اور متوسط طبقے کی تعلیم پر مذہب کی گرفت بڑھتی جا رہی ہے۔
مذہب اور حکومت دونوں کی موجودہ صورتیں تعلیمی عوامل کی حیثیت سے بعض خامیوں کی حامل ہیں۔ آئندہ ابواب میں ہم ان خامیوں کا مفصل ذکر کریں گے۔ یہاں مختصراً میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مذہب اور حکومت دونوں ہی بعض ایسے عقیدوں کو قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جن کو کوئی غیر متعصب شخص قبول نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وہ ایک ایسی اخلاقیات ٹھونسنا چاہتے ہیں جو اس قدر ظالمانہ ہے کہ اسے صرف وہی لوگ قبول کر سکتے ہیں جن کے انسانی جذبات کو مذہبی عقیدے نے کچل دیا ہو۔
ابھی ہم نے جن نا قابل قبول عقیدوں کا ذکر کیا تھا، ان کی وضاحت کے لئے چند مثالیں ہم پیش کرتے ہیں۔ پہلی مثال تو یہ لیجئے کہ رومن کیتھولک چرچ کا ایمان یہ ہے کہ کوئی پادری لاطینی کے چند جملے روٹی پر پھونک کر اسے حضرت عیسٰی کے گوشت اور خون میں تبدیل کر سکتا ہے۔ برطانوی حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ تاجِ برطانیه محکوم اقوام کے لئے کے لئے ایک نعمت ہے۔ اچھا اگر اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ نوجوان اس قسم کی باتوں میں یقین رکھیں تو پھر انہیں احمق بتائے رکھنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی انہیں بعض اطراف میں اپنی عقلی قوتوں کو بروئے کار نہ لانے کا درس بھی دینا چاہئے۔
ظالمانہ اخلاقیات کی چند مثالیں یہ ہیں: رومن کیتھولک چرچ اس قسم کا قانون بنوانے کے در پے ہے کہ اگر کوئی عورت کسی آتشک زدہ مرد سے حاملہ ہو جائے تو اسے مصنوعی طریقے سے وضع حمل کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے بجائے بیچاری عورت کو ایسا بچہ پیدا کرنے پر مجبور کرنا چاہئے جو غالباً آتشک جیسی موذی مرض کا شکار ہو گا تاکہ وہ بچہ دکھ اور مصیبت کے چند برس اس دھرتی پر گزارنے کے بعد ہمیشہ کے لئے برزخ میں رہے (بشرطیکہ اس کے ماں باپ کیتھولک نہ ہوں)۔ برطانوی ریاست کے نزدیک ہر انگریز کا فرض یہ ہے کہ جب کبھی پارلیمینٹ میں جمع ہونے والے چند بزرگ حکم دیں تو وہ غیر انگریزوں کی قتل و غارت شروع کر دے۔
یہ چند مثالیں اس امر کی وضاحت کے لئے کافی ہیں کہ ریاست اور مذہب عقل اور نیکی کے جانی دشمن ہیں۔
ان حالات میں تعلیم پر گھر کے اثرات کو اس وقت تک ختم کرنا خطر ناک ہے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ کون سا عامل اس کی جگہ لے گا۔ ہاں اگر مذہبی اثرات سے پاک عالمی ریاست وجود میں آجائے تو پھر شاید نوجوانوں کے لئے گھر کی قدر و قیمت کم ہو جائے گی اور یہ توقع کی جا سکے گی کہ والدین کے اثر و رسوخ کے خاتمے سے بچوں پر خوش گوار اثر پڑے گا اور وہ پہلے سے زیادہ خوش اور زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے، سوویت یونین کے سوا ہر جگہ ترقی مذہب اور ریاست کی مخالفت کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہذا جو شے بھی انسانی ذہن پر ان دونوں کی گرفت کو مضبوط کرنے والی ہو اسے تشویش سے دیکھنا چاہئے۔
یہ سوال کہ آیا بچوں کو والدین سے جدا کرنا چاہئے اور ان کی پال پوس ریاست کے ذریعے ہونی چاہئے ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے حوالے سے بھی غور و فکر ہونا چاہئے۔ ماں اور باپ کے احساس کا عورتوں اور مردوں دونوں کے کردار پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اعداد و شمار دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ کہنے کے قابل نہیں ہیں کہ اس احساس کو ختم کر دینے کی صورت میں عورتیں اور مرد کس قسم کے انسان بن جائیں گے۔ بہر طور ہم یہ قیاس ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ بڑی حد تک بدل جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس قسم کے حالات میں عورتیں بچوں کی کم ہی خواہش محسوس کریں گی اور بچے جنا ایک اجرتی پیشہ بن جائے گا جس کو شاید سول سروس کی ایک شاخ کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ عورت اور مرد کے تعلقات بے کیف اور سطحی ہو جائیں گے اور گہری ازدواجی محبت نایاب ہو جائے گی۔ اس امر کا بھی امکان ہے کہ اس صورت میں مرد سخت محنت سے کترانے لگیں گے کیونکہ آج کل عمر کے درمیانے حصے میں اکثر مرد اپنے خاندانوں کی پال پوس کے لئے ہی زیادہ تر محنت کرتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ زندگی کے نیچے کی بڑی بڑی رقوم ادا کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی انہیں اپنے اہل خانہ کی فکر رہتی ہے۔ یہ بات مشکوک ہی ہے کہ اگر خاندان کا وجود نہ رہے تو عام لوگ پھر بھی اپنی موت کے بعد وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے کوئی دلچسپی رکھیں گے۔ اس صورت میں ممکن یہ ہے کہ پورے معاشرے پر ایک قسم کی بے بسی و معذوری چھا جائے گی۔۔۔ یعنی اس قسم کی کیفیت جیسی شہد کے چھتے کی ملکہ کے مرنے پر شہد کی مکھیوں پر طاری ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں حتمی فیصلہ بہر حال تجربے کی بنا پر ہی ہو سکتا ہے اور ابھی تک تجربہ مفقود ہے۔
خیر اس مسئلے کے دوسرے پہلو پر بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ تمام ملکیتی جذبے خطرناک ہوا کرتے ہیں۔ بچوں کے بارے میں ان کے والدین کے احساسات بھی ایسے ہی ہیں۔ یہ احساسات بہت زیادہ انفرادی اور مسابقانہ ہوتے ہیں۔ . بہت سے لوگ جب تک بچوں سے محروم ہوتے ہیں، اجتماعی جذبے سے سرشار رہتے ہیں لیکن جب ان کے اپنے بچے ہو جاتے ہیں تو ان کی ساری توجہ اپنے خاندان کی فلاح و بہبود تک ہی محدود ہو جاتی ہے۔ نجی ملکیت کا جذبہ بڑی حد تک خاندان سے منضبط ہے۔ اسی لئے افلاطون کے زمانے سے کمیونسٹ بجا طور پر یہ سوچتے رہے ہیں کہ ان کا معاشی نظام بچوں کو نجی ملکیت کے انتقال کے خاتمے کا متقاضی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ والدین کے جذبے کے قابل تعریف اور مفید حصے کو کسی خاص سکول میں کسی طرح بچوں کو منتقل کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہو سکے تو یہ ایک یقینی اخلاقی پیش رفت ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماں باپ کا جذبہ ایثار اور دوسروں کی بے لوث خدمت کا نمایاں سر چشمہ ہے اور بہت سی بے اولاد خواتین نے اس حقیقت کو اجاگر کر دیا ہے کہ جب اس جذبے کو عام کر دیا جائے تو وہ کس قدر قابل قدر ہو سکتا ہے۔ اگر اس جذبے کو ملکیت کے رجحان سے آزاد کر دیا جائے تودنیا کی خونخواری کسی حد تک کم ہو جائے اور لوگ صرف اپنی او لاد،اپنے اہل خانہ کی بہبود کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے سب کی بھلائی کی خواہش کرنے لگیں گے۔ بلاشبہ یہ سب کچھ محض قیاسی ہے، تاہم یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جسے ذہن نشین رکھنا چاہئے۔
گھر و سکول کے کے موازنے کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر کسی حد تک بنیادی سوالات اٹھائے بغیر محض فہم عامہ کی بنیاد پر فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ہم اس حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر انسانی نفسیات سے اپنی لا علمی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے احساسات کا کس قدر حصہ جبلی ہوتی ہے۔ نہ ہی ہمیں یہ علم ہے کہ اگر ہمارے جذبات کی صورت بدل جائے تو ان کی شدت کسی قدر برقرار رہے گی۔ توقع کرنی چاہئے کہ سوویت یونین کچھ عرصہ بعد ایسے اعداد و شمار مہیا کر سکے گا جو ہمیں ان مسائل کے بارے میں زیادہ جاننے کے قابل بنا سکیں گے۔ اس وقت تک واحد سائنسی رویہ یہ ہے کہ ہم اپنا فیصلہ ملتوی رکھیں۔
اصل عنوان : Home Versus School
مصنف : Bertrand Russell
کتاب : Education and the Social Order