یہ سوال اکثر وبیشتر ترک ادبیات کے حوالے سے یا ترکی کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔
اس کا سب سے سادہ جواب تو یہ ہے کہ خواتین خود سامنے نہیں آنا چاہتی تھیں۔ اس میدان کو مردوں کا میدان تصور کیا جاتا تھا اور کوئی بھی قدغن ، الزام ،بہتان وغیرہ سے بچنے کے لئے خواتین خود کو پس پشت یا پس پردہ رکھنے کی کوشش کیا کرتی تھیں تاکہ معاشرہ ان کو ‘بری عورت’ کا خطاب نہ دے۔ چونکہ اپنے غم، خوشی یا کسی بھی جذبے کا اظہار اس وقت عورت کو ‘زیب ‘ نہ دیتا تھا۔ سو، معاشرے کو یہ عجیب لگتا تھا کہ عورت بھی مردوں کی طرح کھلی ‘بے غیرتی’ (جرأت اظہار) پر اتر سکتی ہے۔
دوسری اہم وجہ اس کی یہ ہے کہ عثمانی خلافت کے دور میں
خواتین کی تعلیم و تربیت ،خواندگی وغیرہ پر روا رکھی جانے والی عدم توجہی ہے۔
صاحب دیوان شاعرات جن کا کام اور نام آج ہم تک پہنچا ہے وہ بہت پڑھی لکھی ،متمول گھرانوں کی بیٹیاں تھیں۔ان کے باپ اعلی عہدیدار تھے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔
مگر ان خواتین کے لئے بھی زندگی مکمل گلزار نہ تھی ان کی راہ میں بھی انگنت کانٹے تھے۔ جو معاشرے نے ننگ نام، غیرت، رواج، شرم وغیرہ کے نام پر بوئے تھے۔ یوں عثمانی دور خلافت کی ان پڑھی لکھی صاحب
دیوان شاعرات کو بھی
بہت ساری مشکلات اور اٹھانی پڑی تھیں اور جنسی تفریق، تعصب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد ازاں جن مسائل پر
ان کا قلم اٹھا ان میں متنوع موضوعات شامل تھے ۔ جنھیں اس وقت کے مروجہ ترک کلاسیکی ادبی استعاروں، اسلوب اور امثال سے مزین کیا گیا تھا۔
آئیے آپ کو چند مشہور ترک شاعرات سے ملواتی ہوں۔
1۔ زینب خاتون
(پندرہویں صدی کی شاعرہ جو ایک قاضی وقت کی بیٹی تھیں۔)
زینب خاتون کی شاعری کا موضوع خواتین کی خواہشات کا لالچ و حرص کی شکل اختیار کرنے اور خواتین کو کم تر حیثیت سے اوپر لانے اور احساس محرومی و ذلالت سے باہر نکالنا ہے۔ زینب خاتون یہ تمنا کرتی ہیں کہ ان کو بطور شاعرہ تسلیم کیا جائے اور وہ اس ضمن میں ‘مردانگی’ کی آرزو کرتی ہیں۔
Gazel
(آسان ماڈرن ترکش میں غزل)
Öğren bilinmeyeni, aydınlat ışığınla
اس کے نامعلوم کو معلوم کرو، اس کی روشنی سے مستنیر ہو جاؤ
Dünyayı ve cennet bahçelerini.
دنیا اور جنت کے باغوں کو
Coştur sözlerinle cennetin ırmaklarını
اپنے لفظوں سے جنت کی انہار کو مطلاطم کرو
Çöz saçlarını, yayılsın kokun dünyaya.
اپنے بال سنوارو،
کہناس کی خوشبو پھیل جائے چہار سو
Duyur Hatay’dan Çin’e kadar
پھیل جاتی ہیں حطائے (ترکی کا علاقہ) سے چین تلک
Yazdıklarını bir rüzgar hızıyla.
تمہاری تحریریں ہوا کی تیزی سے
Dertlenme, sevdiğine kavuşmak için
پریشان نہ ہو محبوب سے ملاقات کے لئے
Çünkü demez hiç kimse, üzme artık yeter kendini.
کیونکہ کوئی بھی اس قابل نہیں، بس اب خود کو اور نہ حزیں کرو
Zeynep, darmadağınıksın sen
Yapma hata,
زینب بڑی پریشان بکھری ہوئی طبیعت کی ہو تم ، مزید غلطی نہ کرو
topla şiirlerini, yaz divanını.
جمع کرو اپنے اشعار اور لکھو اپنا دیوان
Zeynep, bırak teferruatı
Ulaş öze,
زینب ترک کرو ذیلی تفصیلات کو، اختصار سے کام لو
cesaretle ve de açık sözle.
جرات و بہادری دکھاؤ اور صاف الفاظ میں اپنا مدعا کرو بیان۔۔۔
2۔ مِہری خاتون
(پندرہویں صدی کی شاعرہ جو ایک شاعر باپ کی بیٹی تھیں۔ )
مہری خاتون جو زینب خاتون کی ہم عصر تھیں اور اپنی خوبصورتی کے باعث مشہور تھیں، ان کی دیگر وجہ شہرت کا سادہ و پر اثر پیرائے میں غزلیں، گیت اور نظمیں لکھنا تھی۔ دیگر صاحب دیوان شاعرات سے ان کو یہ چیز ممتاز رکھتی ہے کہ وہ محبت کے
موضوع پر بلا جھجھک و دھڑک لکھتی تھیں۔
Gazel
غزل
Ben umardım ki seni yâr-ı vefâ-dâr olasın
میں سمجھتی تھی کہ تم یار وفادار رہو گے
Ne bileydim ki seni böyle cefâ-kâr olasın
کیا خبر تھی مجھے کہ ایسے جفاکار رہو گے
Hele sen kaaide-î cevrde eksik komadın
خصوصا تم قاعدہ ء جور و ستم میں ہر گز رہے نہ غیر حاضر
Dostluk hakkı ise ancağ ola var olasın
دوستی کی مد میں صرف اور صرف حاضر ہر بار رہو گے
Reh-i âşkında neler çektüğüm ey dost benim
رہ عشق میں، میں نے کیا کیا نہ سہا
Bilesin bir gün ola aşka giriftâr olasın
اگر تم جان جاو تو عشق میں اک روز گرفتار رہو گے
Sen ki cân gül-şeninin bi gül-i nev-restesisin
تم کہ جان مری گلشن کے کسی گل نو رستہ کی طرح ہو
Ne revâdır bu ki her hâr ü hasa yâr olasın
کیا یہ روا ہے کہ ہر خار و خس کے یار ہوگے
Beni âzâde iken aşka giriftâr itdin
مجھ آزاد روح کو عشق کے جال میں گرفتار کیا
Göreyim sen de benim gibi giriftâr olasın
دیکھتے ہیں تم بھی میری طرح گرفتار ہوگے
Bed-duâ etmezem ammâ ki Huda’dan dilerim
بددعا نہیں دیتی مگر خدا سے التجا کرتی ہوں کہ
Bir senin gibi cefâ-kâra hevâ-dâr olasın
تم بھی اپنی طرح کے جفاکار کے گرفتار ہوگے
Şimdi bir hâldeyüz kim ilenen düşmanına
ابھی ایک حال میں ہیں ہم ورنہ کون اپنے دشمن سے
Der ki Mihrî gibi sen dahi siyeh-kâr olasın
کہتا ہے کہ مہری کی طرح تم بھی سیاہ کار ہوگے۔
3۔ لیلی خانم
(انیسویں صدی کی اواخر کی شاعرہ جو شاہی محل کے طبیب کی بیٹی تھیں۔)
ایک پڑھی لکھی، تربیت یافتہ، کثیر المشرب خاتون جن کا درباری و شاہی خواتین سے قریبی اور گہرا تعلق تھا۔
وہ اپنی حاضر جوابی اور پختہ حس مزاح کے لئے جانی جاتی تھیں۔ وہ مولانا رومی کی مرید تھیں۔ اور ‘میولوی’ عقیدے کی پیروکار تھیں۔ وہ مہری خاتون کی طرح زیادہ بے باک تو نہ تھیں اپنے اظہار میں مگر پھر بھی اپنے وقت کے حساب سے وہ خواتین کے اظہار رائے پر قدغن کے خلاف اور خواتین کے جذبات کے اظہار کے ضمن میں ایک موثر و توانا آواز سمجھی جاتی تھیں۔
Gecenin Sırrı
رات کا راز
Karanlık gecenin ardına saklanan sır,
تاریک رات کے پیچھے چھپا ہوا راز
Büründü mateme.
ماتم میں بدل گیا
Ne ses, ne seda var
Bir adım daha
نہ چھاپ نہ آواز ہے ایک قدم اور
yaklaşıyoruz ölüme,
Her saniye.
ہم بڑھ رہے ہیں موت کی جانب ہر لحظہ
Sokaklar karanlık ve ıssız,
گلیاں تاریک و تنہا
Geceler soğuk ve acımasız.
راتیں یخ اور بے رحم
Kim bilir kimleri karıştırdı,
کون جانے کہ کن کو ملایا
Sonu meçhul yollara?
ان کی عاقبت نے مجہول رستوں سے؟
Kimleri azraille tanıştırdı;
کن کو عزرائیل سے ملوایا
Oturttu ölümün kucağına?
اور بٹھایا موت کی بانہوں میں ؟
Geceler acımasız,
İnsanlar arsız.
راتیں بے رحم ، انسان بے مروت
Cefa içinde sefa
جفا کے اندر صفا
Sefa içinde cefa sürdüler
صفا کے اندر جفا ملائی انھوں نے
Adem’den bu yana.
آدم سے لے کر آج تلک
Bir kez olsun bakmadılar ibret aynasına.
ایک بار ہی سہی نہیں دیکھا انھوں نے
عبرت کا آئینہ
Gece karanlık,
رات تاریک
Kötüye açık;
شر کے لئے کھلی دستیاب
İnsan demez ’Hayır’!
انسان نہیں کہتا ‘نہیں ‘!
Geceyle birlikte örtünen sır,
رات کے ساتھ لپٹا ہوا راز
O’na uyana hazır.
اس کو جگانے کے لئے تیار
Ne mutlu karanlıkta bile
Yüreğinde güneş taşıyan insana!
نعمت ہیں تاریکی میں دلوں میں سورج رکھ کر پھرنے والے لوگ!
4۔شرف خانم
( انیسویں صدی کی شاعرہ
جو ایک قاضی کی بیٹی تھیں۔)
ان کی زندگی مصائب و آلام سے بھرپور تھی۔وہ ان مصائب کا ذکر اپنی ان نظموں میں کرتی نظر آتی ہیں جو انھوں نے سلطان محمود ثانی اور والدہ سلطان کے لئے لکھیں ۔ ان کی نظمیں جو روایتی انداز میں تصنع سے پاک اور سادہ ، رواں اسلوب میں لکھی گئی ہیں، توجہ کا مرکز رہیں۔
GAZEL
غزل
Dil-i şûride hayfâ yâre yâr ağyâre mâ’ildir
دل شوریدہ پر حیف کہ یار تو یار اغیار پر شیدا ہے
Bilinmez hikmeti bülbül güle gül hâre mâildir
معلوم نہیں یہ راز کہ بلبل ، گل تو گل ،خار پر شیدا ہے
Olursun pür gazab ben arz-ı hâl ettikçe sen ammâ
تم غیض و غضب میں آؤ گے میری عرض حال سنتے ہی مگر
Cefâkârım mizâcın, çâre ne ağyâre mâildir
مرے جفاکار ترا مزاج ، کیا ہو چارہ کہ اغیار پر شیدا ہے
Şikâyet sanma renc ü zahm-i aşk eyler isem izhâr
اسے شکوہ نہ سمجھ گر میں رنج و زخم عشق کا کروں اظہار
Tabîbe hasta elbet derdini iş’âre mâildir
کہ طبیب کو بہر صورت بیمار، اپنے درد کے بیان کے اظہار پر شیدا ہے
Kaçınmaz şûle-i dîdâr-ı yâre cân atar dâim
فرار نہ ہوگا شعلہ ء دیدار یار پر جان دے گا ہمیشہ
Benim mürg-i dilim pervâne-âsâ nâre mâildir
میرا مرغ دل ، پروانہ ء دیوانہ کی طرح نار پر شیدا ہے
Eder tahsîn nazm-ı dilküşâsın eylesen
tanzîr
کرتی ہے ستائش
نظم دلکشا ہو تم ، بنتی ہے تشبیہ
Şeref tab’-ı selîsim böyle hoş güftâre mâildir.
شرف میری طبع سلیس ایسے خوش گفتار پر شیدا ہے
5۔ عادلہ سلطان
(انیسویں صدی شاعرہ جو ایک سلطان کی بیٹی تھیں ۔)
ان کی شاعری کا محور ذاتی رنج و غم ہے۔ ان کی اکثر نظمیں اپنی اولاد، شوہر اور بیٹی خیریہ سلطان کی وفات کے گہرے صدمے کے اظہار کے گرد گھومتی ہیں۔
Aşktır min-evvel ilâ âhir kevn ü mekân
عشق ہے اول تا آخر کون و مکان
Aşktır gâhî dil ü cânda nihân gâhi ayân
عشق ہے کبھی دل و جان میں نہاں کبھی عیاں
Aşktır eden cemâl-i pâk-i cânâna nazar
عشق ہے جمال پاک جانان کو کرنے والا نظر
Aşktır ol gonca gül rûyu için bülbül olan
عشق ہے اس غنچہء گل رو کے لئے بننے والا بلبل
Aşktır dü-âlem içre cânı yâra vasl eden
عشق ہے دو عالم میں اپنی جان یار سے وصل کرنے والا
Aşktır dâim olan hem mahrem-i esrâr-ı cân
عشق ہے ہمیشہ رہنے والا اور محرم اسرار جان بھی
Aşktır çün dilde misbah-ı tecellîyi yakan
عشق ہے یوں دل میں مصباح تجلی جلانے والا
Aşktır bil ‘küntü kenz’ birle miftâh-ı cinân
عشق ہے ‘کنت کنز'( وہ مخفی خزانہ جو اللہ نے حضرت محمد کو عطا کیا) کے ساتھ مفتاح جنان
Aşktır bî-kayd pervâz eyleyip sîmurg-veş
عشق ہے بے قید پرواز کرنے والا سیمرغ وش
Aşktır dost ellerini dâima seyrân eden
عشق ہے دوست (محبوب حقیقی) کے بازوؤں کی جانب ہمیشہ لپکنے والا
Aşktır mir’ât-ı kalbi eyleyen sâf ü celî
عشق یے مرآة قلب کو کرنے والا صاف و جلی
Aşktır dilde veren nûr-ı ziyâyı her zamân
عشق ہے دل کو نور ضیاء بخشنے والا دائم
Aşktır kalbi kılan pür-nûr mihr-i mâh-veş
عشق ہے دل کو رکھنے والا پر نور مہر ماہ وش
Aşktır şem’-i cemâle karşı pervâne yanan
عشق ہے شمع ء جمال کے سامنے پروانہ جلانے والا
Aşktır hem saykal-ı mir’at-ı esbâb-ı derûn
عشق ہے تمام صیقل مرآة اسباب دروں
Aşktır bir âteş-i cân-sûz ey dil sen de yan
عشق ہے ایک آتش جان سوز
اے دل تم بھی جلو،
Aşktır beyt-i dili meyhâne-i irfân eden
عشق ہے بیت دل کو بنانے والا مے خانہ عرفان
Aşktır Leylâları Mecnûn ü ser-gerdân eden
عشق ہے لیلاوں کے لئے مجنون کو کرنے والا سر گرداں
Aşktır fehm ile iş’âr eyleyen derd-i dili
عشق ہے فہم کے ساتھ درد دل بیان کرنے والا
Aşktır bak Âdile çarhı eden keşf ü beyân
عشق ہے دیکھو عادلہ چرخ کو کرنے والا کشف و بیان۔
6۔ خدیجہ نقیہ خانم
(انیسویں صدی کی شاعرہ جوایک شاہی نجومی اعلی کی بیٹی تھیں۔)
نقیہ خانم، اپنے وقت کی جانی مانی شاعرہ شرف خانم کی بھتیجی تھیں۔ ان کے دیوان کا دوسرا ایڈیشن بھی چھپا تھا۔ رسائل وغیرہ میں چھپنے والا ان کے کلام کا منتشر ذخیرہ جمع نہ کیا جا سکا۔ ان کے کلام کا ایک حصہ جو ترک شاعری پر مشتمل تھا وہ ان کے بھائی نبیل صاحب کے دیوان کے آخر میں،احمد مختار صاحب کی جانب سے شامل کرکے شائع کیا گیا۔
Gazel
غزل
Bir gamze-i hûn-rîze şikâr oldu bu gönlüm
ایک غمزہ ء خون ریز کا ہوا شکار میرا یہ دل
Şeb-tâ-seher âşüfte vü zâr oldu bu gönlüm
شب تا سحر ہوا آشفتہ و زار میرا یہ دل
Bir çâresi yok derde giriftâr olup eyvâh
کوئی چارہ نہیں اس کا درد کا اسیر ہو کر ہائے
Bir gonçe için âleme hâr oldu bu gönlüm
ایک غنچے کی خاطر عالم گیا ہار میرا یہ دل
Gülçîn-i visâl olmak için bâğ-ı tarabda
گلچین وصال ہونے کے لئے باغ طرب میں
Bir bülbül-i şûrîdeye yâr oldu bu gönlüm
ایک بلبل شوریدہ کا ہوا یار میرا یہ دل
Gülşende edip nağme-i bülbül ana te’sîr
گلشن میں نغمہء بلبل سا کرتے ہوئے
Feryâd ile mânend-i hezâr oldu bu gönlüm
فریاد سے ہوا مانند ہزار میرا یہ دل
Geçdi ney ü meyden işidip savt-ı hezârı
گزر گیا نے و مے کی ہمرہی سے صوت ہزاری
Medhûş olarak mâil-i zâr oldu bu gönlüm
مدہوش ہو کر ہوا مائل زار میرا یہ دل
Rü’yet hevesiyle Nakiye bir kez o şûhu
روویت ہوس سے نقیہ ایک بار اس شوخ کے
Akdâm-ı rakîbâna gubâr oldu bu gönlüm۔
اقدام رقیب کا بنا غبار میرا یہ دل