غزل
رضوان نقوی
اس درجہ ترے نام پہ بیوپار ہوئے ہیں
سب لوگ ہی تشکیک سے دو چار ہوئے ہیں
جب سے ہے ترا قُرب میسر ہمیں آیا
ہم دوہری اذیت میں گرفتار ہوئے ہیں
کُچھ لوگ تو رستے میں کہیں کھو گئے لیکن
کُچھ لوگ مسافت سے بھی بیزار ہوئے ہیں
اک چشمِ مسیحا نے ہمیں روند دیا ہے
ہم لوگ مسیحائی سے بیمار ہوئے ہیں
اے دستِ ہُنر مند تری خیر ہو ہر دم
کیا ظرف ترے چاک پہ تیار ہوِئے ہیں
آنکھوں میں کبھی خواب، کبھی خواب میں آنکھیں
ہم لوگ عجب رنگ سے بیدار ہوئے ہیں
جب جب بھی ملایا ہمیں مٹی میں کسی نے
ہم خاک کے سینے سے نمودار ہوئے ہیں
کُچھ بُجھتے چراغوں نے ہمیں روک لیا ہے
ہم جب بھی اندھیروں کے طرفدار ہوئے ہیں
Follow Us