fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

نارویجین افسانہ: دو دوست  || تحریر: الیکژیندر شیلاند(ناروے)

اردو ترجمہ : شگفتہ شاہ (ناروے)

نارویجین افسانہ: دو دوست  || تحریر: الیکژیندر شیلاند(ناروے)

اس بات کی تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا کہ اس نے پیسے کہاں سے حاصل کئےتھے ۔لیکن جو شخص الفونس کی اس شاہانہ طرزِ زندگی پر سب سے زیادہ حیران تھا، وہ اس کاپرانا ساتھی اور جگری دوست تھا۔

جب سے انہوں نےاپنے شراکتی کاروبار سے اپنااپنا حصّہ الگ کیا تھا ،بہت سے صارفین اور اچھےمراسم دار رفتہ رفتہ  شارلے کے ہاتھوں میں آ گئے تھے۔اس کاسبب یہ نہیں تھا کہ وہ اپنے پرانے شراکت دار کے راستے کی رکاوٹ بننا چاہتا تھا ،بلکہ اس کے بر عکس حقیقت یہ تھی کہ ان دونوں میں سے وہ ہی زیادہ قابل تھا۔ جب الفونس کو اپنا کاروبار اپنے ہاتھوں میں لینا پڑا،تو اس پر گہری نظر رکھنے والے پر جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اپنی مستعدی، ملنساری اور پرکشش شخصیت کے باوجود اس قابل نہیں کہ خودمختارانہ طور پراپنے کاروبار کا سارا انتظام خود سنبھال سکے۔

شارلے اس کا بغور جائزہ لے رہا تھا،وہ اس کے ہر ہر قدم پر اپنی تیز نگاہ رکھے تھا۔اس کی ہر غلطی،ہر بے اعتدالی،  ہرگھاٹا  – وہ سب کے بارے میں بہت اچھی طرح باخبر تھا اور حیران تھا کہ الفونس یہ سب کب تک جاری رکھ سکے گا۔

وہ دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے تھے۔ان کی مائیں عم زاد تھیں اور دونوں خاندان ایک ہی گلی میں ایک دوسرے   کی ہمسائیگی میں رہتے تھے  – جو پیرس جیسے شہر میں قرابت داری کو قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ پھر ان دونوں کا داخلہ بھی ایک ہی اسکول میں ہو گیا۔

اب تو وہ ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہو گئے۔ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کا عمل ان کے کرداروں کی بنیادی خصوصیات پر حاوی ہوا اور بالآخران کی خصوصیات یوں ہم آہنگ ہو گئیں جیسے لکڑی کے تراشیدہ ٹکڑے ،جنہیں جوڑکر بچّے خوش نما تصاویر بناتے ہیں۔

ان کے درمیان واقعی ایک ایسا خوبصورت رشتہ قائم ہو چکا تھا، جو نوجوانوں میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ دوستی کو ایک ایسا فرض نہیں سمجھتے تھے جہاں ایک دوست دوسرے کی ہر بات کو برداشت کرنے کا پابند ہو،بلکہ وہ باہمی لحاظ داری میں ایک دوسرے پرسبقت لے جاناچاہتے تھے۔

اس دوران اگر کبھی الفونس نے شارلے کے ساتھ اپنے تعلقات میں ضرورت سےزیادہ لحاظ داری برتی ،تو  بہر حال   یہ اس کا لاشعوری فعل تھا۔اور اگرکوئی اسے اس بارے میں بتاتا، تو وہ بلاشبہ ایسی غلط تعریف پر زور سے ہنس دیا کرتا تھا۔

اس کے خیال میں زندگی بہت آسان اور سیدھی سادھی تھی،اس لئے یہ بات تو اس کےذہن میں بھی نہیں آ سکتی تھی کہ وہ اپنےسب سے پیارے دوست پرکسی قسم کا کوئی جبر روا رکھتا۔ شارلے اس کا سب سے اچھا دوست تھا،یہ اس کے لئےبالکل ایسی ہی فطری بات تھی،جیسے کہ وہ اچھےرقص ،اچھی گھڑسواری  اور نشانہ بازی میں مہارت رکھتا تھا۔اس کےخیا ل میں  پوری کائنات بے حد شاندارطریقے سے ترتیب دی گئی تھی۔    الفونس قسمت کا دھنی،ایک  لاڈلا بچّہ تھا؛اسے محنت کئے بغیر سب کچھ حاصل ہواتھا۔زندگی اس کے لئے ایک خوشنما لباس کی طرح ہر لحاظ سےموزوں تھی اور وہ اسےاس محبت سے زیبِ تن کئےہوئے تھا کہ لوگ اس سے حسد کرنا بھول گئے تھے۔

اورپھر وہ بے حد وجیہہ، دراز قد اور دبلا پتلا تھا۔اس کے بال بھورے ،موٹی موٹی روشن آنکھیں اور چہرہ صاف اور چمک دار تھا۔ جب وہ ہنستا تو اس کے خوبصورت دانت دکھائی دیتے۔وہ خود بھی اپنی وجاہت سے آگاہ تھا،مگر بچپن ہی سے سب کی توجہ اور لاڈ پیار ملنے کی وجہ سے اس کا غرور و تکبر اس طرح خوش خلقی  و خوش طبعی میں ڈھل چکا تھا کہ کسی کو بھی اس کا کوئی رویہ ناگوارنہ گزرتا۔وہ اپنے دوست سے بے حد پیار کرتا تھا۔مگرکبھی کبھار وہ اپنے اور دوسروں کے لطف اندوز ہونے کی خاطراس سے چھیڑ خانی کر لیاکرتا۔ وہ شارلے کے چہرے کے تاثرات سے اتنی اچھی طرح واقف تھاکہ اسے فوراًمحسوس ہو جاتاکہ اب وہ مذاق میں حد سے بڑھ رہا ہے اور تب وہ اپنے فطری نرم لہجے میں باتیں شروع کر دیتا اور بالآخر سنجیدہ اور دکھی شارلے کو قدرے اداسی سے ہنسنے پر مجبور کر دیتا ۔

شارلے اپنے لڑکپن ہی سے الفونس کا بے حد مداح تھا۔وہ پستہ قد ،عام سا ،خاموش طبع اور شرمیلا لڑکا تھا۔ جب اس کے دوست کی شاندار خصوصیات اس پر اثرانداز  ہو ئیں تو اس کی زندگی بھی متحرک ہو گئی۔

اس کی ماں اکثر کہا کرتی تھی:’’ان دونوں لڑکوں کی دوستی ،میرے بے چارے شارلے کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ،اس کے بغیر اس کی زندگی یقیناً بے حد اداس  گزارتی۔ ‘‘

جب الفونس کو ہر موقع پر ترجیح دی جاتی تو شارلے بہت خوش ہوتا؛ اسے اپنے دوست پر فخر تھا۔وہ اس کے اسکول کےمضامین لکھتا،امتحان کے دوران سرگوشیاں کر کے اس کی مدد کرتا،اساتذہ سے اس کی سفارش کرتااور لڑکوں سے اس کے لئے لڑائی جھگڑے مول لیا کرتا تھا۔

کامرس اکادمی میں بھی یہی صورتِ حال جاری رہی۔ شارلے الفونس کے سب کام کر دیتا اورالفونس اسے اپنی بے پایاں دوستی اور لازوال خوش اخلاقی سے نوازتارہتا۔

اپنی نوجوانی کے دنوں میں جب وہ دونوں ایک ہی بنک میں ملازم تھے تو ایک روزبنک کے سربراہ نے شارلے سے کہا: ’’یکم مئی سے ا ٓپ   کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا  جائے  گا۔   ‘‘

‘‘     ’’میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں،‘‘ شارلے نے جواب دیا،’’ اپنی اور اپنے دوست کی جانب   سےبھی۔

’’جناب الفونس کی تنخواہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ،‘‘بنک کے سربراہ نے کہا اور دوبارہ لکھنے میں مصروف ہو گیا۔

شارلے اس سہ پہر کو کبھی نہ بھول سکا۔یہ پہلا موقع تھا جب اسے اس کے دوست پر ترجیح  اور برتری دی گئی تھی۔ اور اس کی وجہ اس کی تجارتی مہارت تھی، وہ معیار تھا جسے اس کاروباری نوجوان  نے بہت بلند کر دیا تھا، اور اب اسے اپنے دوست پر ترجیح دی گئی ۔اور وہ اس بنک کا سربراہ تھا جس نے ذاتی طور پر اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا تھا۔

اسے یہ سب بہت عجیب سا محسوس ہوا ،ا س نے ا سے اپنے دوست کے ساتھ  ناانصافی  تصور کیا۔ اس نے الفونس کے ساتھ تو اس واقعہ کا ذکر تک نہ کیا، البتہ اپنے دوست کو مشورہ  دیا کہ انہیں کریدٹ   لیونیس  میں دو خالی اسامیوں کے لئے درخواستیں بھیجنی چاہییں ۔

الفونس فوراً ہی راضی ہو گیا، وہ بھی تبدیلی چاہتا تھا اور پھر اسے  بولیوارد  کے قریب بنک کی  شاندار اور نئی عمارت  ریو برگئر کے تاریک دفاتر کی نسبت زیادہ پر کشش لگتی تھی۔ یکم مئی سے وہ  دونوں کریدٹ لیونیس منتقل ہو گئے۔ آخری  روز وہ بنک کے سربراہ کو الوداع کہنے کے لئے اس کے کمرے میں گئے ،جب الفونس کمرے سے باہر نکل گیا(الفونس ہمیشہ اس سے پہلے دروازہ سے باہر نکلا کرتا تھا)تو اس عمر رسیدہ سربراہ نے دھیمی آواز  میں شارلے سے   کہا:’ ’ایک کاروباری شخص کو محض جذباتیت زیب نہیں دیتی۔‘‘

اس روز کے بعدسے  شارلے میں ایک خاص تبدیلی رونما ہوئی، نہ صرف یہ کہ وہ پہلے کی طرح سخت محنت اور دیانت داری   سے اپنے کام میں مشغول رہا،  بلکہ اس نے اپنے اندر ایک ایسی قوت اور کام کرنے کی توانائی پیدا  کر لی کہ بہت جلد  اپنے  اعلیٰ   افسروں کی توجہ حاصل کر نے میں کامیاب ہو گیا۔ اور یہ  بات سب پر عیاں ہونے میں ذرا دیر نہ لگی کہ وہ اپنے دوست سے کہیں زیادہ بہتر کاروباری صلاحیتوں کا مالک ہے؛  جب بھی اس کی صلاحیتوں کا  اعتراف کیا جاتا ،وہ اپنی جدوجہد کو تیز تر کر دیتا ۔ گو کہ اس کی ہر پیش رفت کافی دنوں تک اس کے ضمیر  پر ہلکی سی خلش کا تاثر چھوڑ جاتی ،لیکن  جلد ہی وہ ایک بے چین جوش کے ساتھ دوبارہ اپنے کام  میں مصروف ہو جایا کرتا تھا۔

ایک روز الفونس نے اپنے ہلکے  پھلکے  اور بے تکلفانہ  انداز میں اس سے کہا: ’’تم بلاشبہ ایک قابل شخص ہو، شارلے ! تم بوڑھے ، جوان ہر ایک سے  آگے  نکلتے جا رہے ہو  –  میرا تو ذکر ہی نہ کرو! – مجھے تو تم پر فخر ہے۔‘‘

شارلے یہ سن کر شرمندہ  سا ہو گیا۔ا س کا خیال تھاکہ الفونس پیچھے چھوڑ  دیئے جانے پر دکھی ہو گا، مگر اب اس پر عیاں ہوا کہ اس کا دوست نے نہ صرف یہ کہ اس کی برتری کو تسلیم کرتا تھا بلکہ وہ اس پر فخر بھی کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ  ساتھ  اس کے کام میں ٹھہراؤ   آتا  گیا اوراس کا پائدار کام زیادہ سے زیادہ سراہا جانے لگا۔

لیکن اب جبکہ حقیقت میں وہ ایک قابل ترین شخص تھا تو پھر اس  کا کیا جواز تھا کہ اسےتو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا تھا،  جب کہ الفونس سب کا  منظورِ نظر تھا؟ اس کی سخت محنت سے حاصل کی گئی ترقیوں کی تعریفی اسناد بھی اسے نہایت روکھے  پھیکے اور کاروباری انداز سے پیش کی جاتیں،  جب کہ اعلیٰ افسر   سےلے کر پیغام رساں تک سب الفونس سے خوش دلی سے بات کرتے اور اسے آداب پیش کرتے تھے۔

بنک کے مختلف شعبوں اور دفاتر میں جناب الفونس کو اعلیٰ عہدے پر قابض کرانے کی سازش رچائی گئی ؛کیونکہ اس کی وجاہت اور خوش مزاجی کی بدولت اس کی موجودگی  میں سب  کے لمحات خوشگوار ہو جاتے تھے۔ اس کے برعکس شارلے اکثر یہ محسوس کرتا کہ اس کے ساتھی اسے ایک ایسا خشک مزاج انسان سمجھتے تھے، جو صرف کاروباری  امور اور اپنی ذات کے بارے میں ہی سوچتا تھا۔

جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس کا انمول دل نفیس احساسات سے لبریز تھا،مگر اس میں جذبات کے اظہار کی صلاحیت نہیں تھی۔

شارلے کا شمار ان پستہ قد ،سیاہ فام  افریقیوں  میں ہوتا تھا جن کی داڑھی آنکھوں  کے نیچے سے بڑھنا شروع ہوتی ہے؛ اس کے چہرے کی رنگت  زردی مائل اور سر کے بال کھردرے اور نو کیلے تھے ۔جب وہ خوش اور پر جوش ہوتا تب بھی اس کی آنکھیں نہیں پھیلتی تھیں؛ البتہ ان میں چمک پیدا ہوتی اور وہ دائیں بائیں گھومنے لگتی تھیں۔ جب وہ ہنستا تو اس کے دہانہ  کے کونے اوپر کی طرف مڑجاتے۔  بارہا  اسے محسوس ہوتا کہ جب اس کا دل نیک نیتی اور خوشی  سے لبریز ہوتا ،تو بھی  لوگ اس کے  بظاہر خشک رویے کی وجہ سے قدرے خوف زدہ ہو کر اس کے پاس سے دور ہٹ جاتے تھے۔ ایک فرد واحد جو اس کی رگ رگ  سے واقف تھا، اورجسےاس  میں کوئی برائی نظر نہیں آتی تھی وہ الفونس تھا ،باقی سب لوگ اسے سمجھ ہی نہ  پاتے؛ پھر ایسا ہوا کہ اسے بھی لوگوں پر اعتماد نہ رہا اور وہ مزید اپنی ذات  میں گم ہوتا چلا گیا۔

اس کی سوچوں میں ایک ناقابل ِفہم کرب بڑھتا گیا: وہ جن چیزوں کی شدید خواہش رکھتا ہے، کیوں ان میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا ؛ایک ایسی دوستی، ملنساری اورگرم  جوشی، جو اس کی محبتوں  کا مساوی جواب دے سکے؟ کیوں ہر ایک الفونس کی طرف مسکرا کر ہاتھ بڑھاتا ہے ،جب کہ اسےصرف لوگوں کی سرد نگاہوں اور سر کی جنبش پر ہی قناعت کرنا پڑتی ہے۔

الفونس اس کی ان خیالات سے بے خبر تھا۔ وہ خوش اور مسرور تھا؛ اپنی زندگی اور کاروبار سے مطمئن تھا۔ اسے بنک کی ایک ایسی شاخ میں ملازمت مل گئی تھی،  جہاں کام آسان اور دلچسپ تھا، اس نے اپنی ذہانت اور میل جول بڑھانے کی صلاحیت کے سبب تسلی بخش حد تک اپنی جگہ بنا لی تھی۔ اس کا حلقۂ  احباب بہت وسیع تھا؛ ہر ایک اس سے واقفیت حاصل کرنے کو ایک اعزاز سمجھتا ،وہ خواتین و حضرات میں یکساں مقبول تھا۔

شارلے کچھ عرصہ تک تو الفونس کے حلقۂ احباب میں شامل رہا مگر پھر اس کے دل میں یہ بد گمانی پیدا ہو گئی کہ اسے صرف الفونس کا دوست ہونے کی وجہ سے محافل میں مدعو کیا جاتا ہے اوراس نے آہستہ آہستہ ان سب  لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

جب شارلے نے الفونس کے سامنے باہمی اشتراک سے ایک کاروبار شروع کرنے کی تجویز پیش کی تو الفونس نے جواب دیا:  ’’تم بہت اچھے انسان ہو  کہ مجھے شریکِ  کاروبار کر ر ہے ہو، ورنہ تمہارے لئے کسی بھی  با صلاحیت  شریک ِ کار کا انتخاب کرنا  قطعاً    مشکل نہیں ہے۔‘‘

شارلے کا خیال تھا کہ ماحول کی تبدیلی اور ان کا ایک ساتھ کام کرنا الفونس کو اس حلقۂ احباب سے باہر نکال لے گا جسے شارلے اب مزید برداشت نہیں کر سکتا تھااورپھر ان دونوں کے تعلق کو مزید مضبوط کر دے گا۔ دراصل اس کے دل میں اپنے دوست کوکھو دینے کا ایک غیر محسوس سا خوف پیدا ہو گیا تھا۔

وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اوراس بات کا فیصلہ کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا کہ آیا  وہ ان لوگوں سے حسد کر تا تھا جو الفونس کے گرد ہجوم کئے ، اسے اپنے گھیرے میں لئے رکھتے تھے، یا اپنے دوست کی خوش نصیبی   پر رشک کرتا تھا۔

انہوں نے بڑے جوش  و خروش اور محتاط انداز سے اپنا مشترکہ کاروبار شروع کیا، جو ان کے لئے نفع بخش ثابت ہوا۔ ان کے بارے میں ایک عام رائے یہ تھی کہ وہ دونوں بہت اچھے انداز سے ایک دوسرے کی ذات کی تکمیل کرتے ہیں۔ شارلے کاروبار کے اہم اور گاہکوں کا بھرو سہ قائم رکھنے والے امور سر انجام دیتا تھا، جب کہ خوبصورت  اور وجیہہ الفونس نے اس نئے کاروبار کو ایک ایسی خاص شان و شوکت عطا کر دی تھی، جس کی قدرو قیمت  کسی طور کم نہیں تھی۔ ان کے دفتر میں آنے   والا ہر شخص اس کی با وقار شخصیت سے متاثر ہوتا اور فطری طور پر  سب اسی سے رابطہ کرتے تھے۔ شارلے بھی اس دوران پنے کام پر توجہ مرکوز رکھتا اورالفونس کو ہی ترجمانی کا موقع دیتا ۔جب اس سے کوئی بات پوچھی بھی جاتی تو وہ سر اوپر اٹھائے بغیر مختصر سا جواب دے دیتا ۔اس لئے زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ شارلے محض ایک قابلِ اعتماد ملازم تھا اورالفونس ہی اس ادارے کا حقیقی سربراہ تھا۔

عام فرانسیسیوں کی مانند وہ شادی کرنے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں تھے، اور پیرس کے دوسرے نوجوانوں کی مانند وہ بھی ایک ایسی زندگی بسر کر رہے تھے جس میں لذا یذِ نفسانی کا بڑا عمل دخل تھا۔

دراصل الفونس جب خواتین کی محفل میں ہوتا تو وہ بے حد خوش رہتا۔ تب اس کا جذبۂ  شوق اپنے عروج پر ہوتا ۔   جب وہ کھانا کھاتے ہوئے پیچھے کو جھکتا  اور اپنا شیمپین کا خالی جام دوبارہ بھروانے کے لئے  بیرے  کی طرف بڑھاتا تو وہ ایک مسرور دیوتا کی مانند خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔

اس کی گردن ایسی جاذبِ نظر تھی کہ خواتین اسے چھونے کی خواہش کرتیں۔ اس کے ملائم اور قدرے گھنگریالے  بالوں کو دیکھ کر یوں لگتا   جیسے انہیں لا پروائی سے سنوارا گیا ہویا ایک ناز آفریں نسوانی ہاتھ نے انہیں پیار سے بکھیر دیا ہو۔  دراصل اب تک بہت سی سفید   اور نرم و نازک انگلیاں بالو ں کے ان چھلوں سے کھیل چکی تھیں؛ الفونس میں صرف یہی خوبی نہیں تھی کہ عورتیں اس سے والہانہ  پیار کرتیں بلکہ اسے یہ نایاب نعمت بھی میسر تھی کہ وہ اس کی ہر خطا معاف کر دیتی تھیں۔

جب وہ دونوں دوست شام کی کسی خوشگوار محفل میں ایک ساتھ جاتے تب ا لفونس شارلے کو کوئی خاص توجہ نہ دے پاتا۔ وہ تو اپنے معاملاتِ محبت کا ہی حساب نہیں رکھ پاتا تھا، اپنے دوست کے معاملات کی کیا خبررکھتا۔اس لئے ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ کوئی حسینہ جسے شارلے اپنی نگاہوں کا مرکز بنائے ہوتا، وہ الفونس کے ہاتھ لگ جاتی۔

گو کہ شارلے اس بات کا خو گرہو چکا تھا کہ ہمیشہ اس کے دوست کوہی ترجیح دی جائے ،مگر کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان شاذو نادر ہی خود کو ان کا عادی بنا سکتا ہے۔  اس لئے اب وہ کبھی کبھار  ہی الفونس کے ساتھ کھانا کھانے جاتا، شراب کا نشہ اور ماحول کی خوشگواری بھی فوری طور پراس کی حسِ مزاح کوبیدارنہ کر پاتی تھی۔

لیکن جب کبھی شیمپین اور نشیلی نگاہوں کا نشہ اس کے سر چڑھ جا تاتو اکثر وہ ہی سب سے زیادہ بے قابو ہو جاتا ، اپنی موٹی آواز اور اونچے سروں میں گیت گاتا،  ہنستا اور سر کو یوں جھٹکتا کہ اس کے کھردرے، کالے بال اس کے ماتھے پر پھیل جاتے، تب شاداں وفرحاں خواتین اس سے پیچھے ہٹ جاتیں اور اسے  چمنیاں صاف کرنے والا کے نام سے پکارتیں ۔

جب محافظ اس محصور قلعہ نما عمارت میں  اوپر نیچے چکر    لگا رہا ہوتا تو اس خاموش رات میں اسے ایک عجیب و غریب  سی آواز سنائی دیتی، یوں جیسے اس کے پیروں کے نیچے کوئی چیز سرسرا رہی ہو۔ وہ سوچتا کہ کسی دشمن نے کوئی دھماکہ خیز مواد چھپا دیا ہوگا  اور آج  رات یا کل صبح ایک دھماکہ ہوگا  اورمسلح افراد اس شگاف سے اندر گھس آئیں گے۔

اگر شارلے خود پر کڑی نگاہ رکھتا   تووہ اپنے اندر پیدا ہونے والےان عجیب و غریب خیالات کی آوازوں کوسن پاتا ،  مگر وہ انہیں سننا  ہی نہیں چاہتا تھا؛ اس کے دل میں ایک ہلکی سی بدشگونی  پیدا ہو چکی تھی کہ کوئی دھماکہ ضرورہو گا۔  – اور پھر ایک روز واقعی دھماکہ ہو گیا۔

اس روز ان  کے ادارے کے کاروباری اوقات ختم ہو چکے تھے؛ تمام عملہ رخصت ہو چکا تھا ، صرف سربراہان ہی دفتر میں  موجود تھے۔ شارلے بڑی تندہی سے ایک خط لکھنے میں مصروف تھا ،وہ جانے سے پہلے اسے مکمل کرنا چاہتا تھا۔

الفونس نے ہاتھوں پر دستانے   پہنے، ان کے بٹن بند کئے، پھر اپنے ہیٹ کو  برش   سے چمکایا    اور کمرے میں آگے پیچھے ٹہلنے    لگا۔ وہ جب بھی شارلے کی میز کے قریب سے گزرتا تو اس کے خط پر ایک نظر ڈال لیتا تھا۔

ان کا معمول تھا کہ وہ ہر روز شام کے کھانے سے   پہلے بولیوارد کے قریب ایک قہوہ خانہ میں ایک گھنٹہ گزارا کرتے تھے اوراس وقت  الفونس آج   کے اخبارات کا مطالعہ کرنے کو بے چین ہو رہا تھا۔

’’تمہارا یہ خط تو کبھی ختم ہی نہیں ہو گا!‘‘ اس نے قدرے چڑ چڑے پن سے کہا۔

شارلے ایک یا دو لمحات تو چپ بیٹھا  رہا، مگر پھر وہ یوں اچھل کر  کھڑا ہوا کہ اس کی کرسی پیچھے گر گئی: ’’شاید آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ آپ یہ کام بہتر طور پر کر سکتے ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ در حقیقت کاروباری معاملات میں زیادہ مہارت کسے حاصل ہے؟ ‘‘- اورپھر جذبات کی شدت سے مغلوب ہونے کے بعد اس کے منہ سے اس تیزی سے الفاظ کی بو چھاڑ شروع ہوئی، جس تیزی سے فرانسیسی زبان انہیں ادا کرنے کے قابل ہو سکتی تھی۔

یہ ایک ایسا تلخ بہاؤ  تھا جو اپنے ساتھ بہت سے زہر بھرے الفاظ، طعنہ زنیاں  اور الزام  تراشیاں بھی گھسیٹ لایا اور ان سب میں ایک ہلکی سی سسکی کی آواز بھی شامل تھی۔

جب وہ اپنے سینے پر بندھے ہاتھوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ کمرے میں آگے پیچھے ٹہل رہا  تھا تویوں لگ رہا تھا کہ وہ کھردرے بالوں والا ایک ٹیرئر تھا جو ایک خوبصورت اطالوی کتے پر بھونک رہا تھا۔ بالآخر اس نے اپنا ہیٹ اٹھایا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔

الفونس اپنی بڑی  بڑی حیرت بھری آنکھوں سے اسے دیکھتا  رہ گیا۔  جب وہ چلا گیا اور خاموشی چھا گئی تو بھی ایسا محسوس ہوتا تھا  جیسے فضا ابھی بھی ان تکلیف دہ الفاظ کی وجہ سے کانپ رہی ہو۔ اور جب وہ شارلے کی میز کے پاس بے حس و حرکت کھڑا تھا تو ایک ایک کر کے وہ سب جملے اس کے ذہن کے پردوں پر ابھرنے لگے۔

’’کیا آپ نہیں جانتے کہ درحقیقت   کاروباری معاملات میں زیادہ مہارت کسے حاصل ہے؟‘‘ – حقیقت یہ تھی کہ اس نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا تھا کہ شارلے اس سے کہیں زیادہ با صلاحیت تھا۔وہ یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صرف اپنی وجاہت کے بل بوتے پر وہ یہ سب حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔  اسے اس بات کا بھی یقین نہیں تھاکہ اس نے کبھی بھی اپنے دوست کو کوئی دھوکا دیا تھا۔

’’مجھے تمہاری ان بازاری عورتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘‘ شارلے نے کہا تھا۔

کیا وہ واقعی اس چھوٹے قد کی ہسپانوی  رقاصہ میں دلچسپی رکھتا تھا؟- سچ تو یہ ہے کہ اگر الفونس کو اس بات کا ذرا سا شبہ بھی ہو جاتا تو وہ یقیناً اس عورت کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھتا ۔ پھر یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی کہ انسان آپے  سے باہر ہو جائے؛ پیرس میں ایسی عورتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔

اور آخر  میں اس کا یہ کہنا: ’’میں کل صبح شراکت داری ختم کر   دوں  گا۔‘‘ یہ بات بھی الفونس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔  وہ دفتر سے نکلا ،مگرراہ  چلتے ہوئے بھی انہی سوچوں  نے اسے گھیرے رکھا، یہاں تک کہ راستے میں اسے ایک واقف کار مل گیا اور یوں کچھ دوسرے خیالات اس کےذہن میں در آئے ؛  ساری سہ پہر یہ احساس اس کے ذہن پر چھایا  رہاکہ کوئی ناگوار شے اس کے تعاقب میں ہے اور جونہی  وہ اکیلا ہو گا، وہ اسے دبوچ لے گی۔

رات گئے جب وہ گھر پہنچا  تو اسے شارلے کا ایک رقعہ موصول ہوا۔  اس نے جلدی سے اسے کھول کر پڑھا؛ اس کی توقع کے برعکس اظہارِ معذرت کی بجائے  اسے اگلی صبح سویرے دفتر پہنچنے کی تاکید کی گئی تھی: ’’تاکہ جیسا کہ ہم  نے طے کیا ہے،جلد از جلد شراکتی کاروبار کے   حصّے تقسیم کر لئے جائیں۔‘‘

اب پہلی بار الفونس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ آج دن کو دفتر میں ہونے والا ڈرامہ چڑ چڑے پن کا ایک جلد گزر جانے والا طوفان نہیں تھا؛  بلکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکا تھا۔وہ جوں جوں اس واقعہ پر غور کرتا، اسے اپنے ساتھ شارلے کا رویہ پہلے سے زیادہ غیر منصفانہ محسوس ہوتا۔ وہ اپنے دوست سے کبھی  برہم نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ اب اس سے خفا تھا۔  مگر ان الزامات کو دہرانے کے بعد جو شارلے نے اس کے سر تھوپے تھے  ،اس کا گداز     د ل قد رے  سخت ہو گیا؛ اور اگلی صبح وہ سرد مہری سے صبح  بخیر  کہنے کے بعد اپنی نشست پر جا بیٹھا۔

اگرچہ وہ معمول سے پور ا ایک گھنٹہ پہلے دفتر پہنچا تھا،مگر اس نے اندازہ لگایا کہ شارلے بہت دیر سے نہایت تندہی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔وہ دونوں اپنی اپنی کرسی پر بیٹھے رہے، اس دوران انہوں نے ایک دوسرے سے صرف کوئی انتہائی لازمی بات ہی کی ؛ایک آدھ    پرچہ  ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گیا، مگر انہوں نے ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملائیں۔

یوں وہ دونوں ایک دوسرے سے زیادہ جوش و خروش سے اپنے اپنے کام میں منہمک رہے،حتٰی کہ دوپہر کے بارہ بج گئے جو معمول کے مطابق ان کے دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔

دوپہر کا کھانا کھانے کے اوقات  ان دونوں کے پسندیدہ لمحات ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر کھانا انہیں دفتر ہی میں    پیش   کیا جاتا ۔جب ان کی بوڑھی پیش خدمت  جو دفتر کی صفائی کے علاوہ ان کا کھانا بنانے پر بھی معمور تھی ، کھانا لگ جانے کی اطلاع دیا کرتی تو وہ کوئی جملہ لکھنے یا حساب کتاب میں مصروف ہونے کے باوجود ایک ساتھ اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوتے ۔

وہ  آ تش دان کے قریب کھڑے   ہو کر   یا  اپنے گرم اور آرام  دہ دفتر میں ٹہلتے ہوئے کھانا کھایا کرتے؛ الفونس کے پاس ہمیشہ سنانے کو چٹ چٹے      قصّے  ہوا کرتے اور شارلے انہیں سن کر خوب ہنسا کرتا۔ اس کے لئے یہ لمحات بے حدخوشگوارہوا کرتے تھے۔  لیکن اس روز جب خادمہ نے اپنے دوستانہ انداز میں اطلاع دی:’’ صاحبان! کھانا لگ چکا ہے!‘‘  تو وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پرہی براجمان  رہے۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، اس نے کمرے سے باہر جاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے الفاظ دہرائے؛ مگر ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔

بالآخر الفونس کو بھوک محسوس ہوئی تو وہ کھانے کی میز کی طرف گیا، اس نے گلاس میں شراب انڈیلی اور اپنی پلیٹ سے گوشت کا تلا ہوا    قتلہ کھانا شروع کر دیا۔  اس لمحے جب وہ میز کے قریب کھڑا ،شراب کا گلاس ہاتھ میں پکڑے ، اپنا لقمہ چبا رہا تھا، تو اس نے اپنے پسندیدہ  دفتر پر جہاں ان دونوں نے بہت سے خوشگوار لمحات گزارے تھے، ایک نگاہ دوڑائی اور سوچا کہ وہ یہ سب کچھ کھو دیں گے، ایک ذرا سی بات پر اپنی زندگیو ں  کو تلخ بنا دیں گے اور پھر  غصّے کی ایک فوری لہر نے اس ساری صورتِ حال کو یوں تبدیل کر دیا  کہ وہ تقریباً زور سے ہنس دینے کو تھا۔

’’سنو شارلے!‘‘ اس نے قدرے سنجیدہ، قدرے شگفتہ لہجے میں جو شارلے کو ہمیشہ ہنسنے پر مجبور کر دیا کرتا تھا،  اسے مخاطب کیا۔ ’’یہ اشتہار دینا واقعی مضحکہ خیز ہوگا:  ایک دوستانہ معاہدہ کے مطابق ،فلاں تاریخ سے  ادارہ      –  – ‘‘

’’میں نے خوب سوچ لیا ہے،‘‘ شارلے نے آہستگی    سے اسے ٹوکا، ’’ہم لکھیں گے کہ: ہم باہمی رضا مندی سے ایسا کر رہے ہیں۔  ‘‘

الفونس اس کے بعد بالکل نہ  ہنس سکا؛  اس نے گلاس میز پر رکھ دیا اور اس کے منہ کا    نوالا   کسیلا ہو گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ آج سے ان کی دوستی ختم ہو گئی  ہے۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا، یہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا البتہ اس کا خیال تھاکہ شارلے   کا رویہ اس کے ساتھ   سخت اور غیر منصفانہ تھا  اور پھر وہ اس سے بڑھ کر کٹھور   او رسرد مہر ہو گیا۔

وہ دونوں کاروبار کے حصص تقسیم ہونے تک ایک ساتھ کام کرتے رہے اور پھر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

*

ایک عرصہ بیت گیا، بچپن کے وہ دوست پیرس جیسے وسیع و عریض شہر     کے الگ الگ     کونوں میں اپنا اپنا   کاروبار   چلاتے رہے۔کبھی کبھار حصص کے دار المبا دلہ میں ان کی ملاقات ہو جایا  کرتی، مگر انہوں نے پھر کبھی ایک ساتھ کاروبار نہ کیا۔ شارلے نے کبھی بھی کاروبار میں الفونس کونیچا    دکھانے کی کوشش نہیں کی؛ وہ اسے برباد کرنا نہیں چاہتا تھا ۔اس کی خواہش تھی کہ الفونس خود ہی اپنے آپ کو تباہ کر لے۔

اور یوں لگتا تھا کہ الفونس بھی اپنے دوست کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتا      تھا۔ گو کہ وہ اب تک ایک اچھا کاروبار چلاتا رہا تھا؛  مگر کاروبار کے حقیقی  گُر جو اس نے شارلے سے سیکھے تھے ،وہ اسے جلد ہی بھول گئے۔ اس نے اپنے کاروبار کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور پھر کئی اچھے کاروباری روابط کھو دئیے۔

وہ ہمیشہ سے ایک آرام دہ اور پر تعیش زندگی بسر کرنے کا خواہش مند رہا؛ مگر شارلے جیسے زیرک دوست نے اس کی خواہشات کو لگام   ڈال رکھی تھی۔ لیکن اب اس کا اندازِ زیست زیادہ سے زیادہ شاہانہ ہوتا گیا، اس نے بہت سے لوگوں سے جان پہچان پیدا کر لی اور اب وہ پہلے سے زیادہ  پر شکوہ اور ہر دل عزیز الفونس تھا؛ جب کہ شارلے اس کے بڑھتے ہوئے قرض پر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔

وہ ہر ممکن حد تک اس کے حالات کا جائزہ لیتا رہتا اور چونکہ ان کے کاروبار ایک ہی نوعیت کے تھے اس لئے وہ کسی حد تک اس کی آمدن   کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ اخراجات  کا تخمینہ لگانا بھی آسان تھا اور جلد ہی اس پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ الفونس نے کئی لوگوں سے بہت سا قرض لینا شروع کر دیا تھا۔

اس نے چند ایسے لوگوں سے جنہیں وہ عام حالات میں کبھی  خاطر میں نہ لاتا، صرف اس لئے جان پہچان قائم رکھی کہ وہ ان کی وساطت سے الفونس کی پر تعیش طرزِ زندگی اور غیر ضروری اسراف کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔  وہ انہی چائے خانوں اور ریستورانوں میں جاتا،  جن میں الفونس جاتا تھا، ا لبتہ اس کے وہاں جانے کے اوقات مختلف تھے۔ حتٰی   کہ وہ اپنے ملبوسات بھی الفونس کے درزی سے ہی سلواتا تھا، اس لئے کہ وہ پستہ قد ، باتونی آدمی  الفونس کے بل ادا نہ کرنے کی شکایت کر کے اس کی تفریح کا سامان مہیا کرتا تھا۔

شارلے اکثر سوچتا کہ الفونس کے چند واجب الادا  قرض خرید کر کسی لالچی  سود خور کے ہاتھ بیچ دینا کس قدر آسان    ہو گا۔ مگر یہ قیاس کرنا کہ شارلے نے عملی طور پر کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی ایسا کرنے کا سوچا ،سخت ناانصافی ہو گی۔  یہ تو بس اس کا خیال تھا،  جسے سوچ کر وہ محظوظ ہو  لیتا؛ البتہ وہ الفونس کے بڑھتے  ہوئےقرضوں   سے خوش تھا۔

لیکن حالات بہت سست روی سے آگے بڑھ رہے تھے اوراس انتظار میں شارلے کا رنگ پیلا پڑنے لگا۔ وہ اس لمحہ کا منتظر تھا جب وہ سب لوگ جو ہمیشہ اسے نظر انداز کرتے تھے، دیکھ سکیں کہ ان کا وجیہہ اور ہر دل عزیز الفونس درحقیقت کتنا نااہل تھا۔وہ اسے اپنے دوستوں کی بے التفاتی کا شکار، ایک عاجز، تنہا اور بے بس شخص  دیکھنا چاہتا تھا۔اور پھر  – – !

اور اس سے آگے اس نے کچھ نہ سوچنا چاہا؛ اس لئے کہ عین اس لمحے اس کے دل  میں چند ایسی سوچوں نے سر اٹھایا ،جن کا وہ ساتھ نہیں   دینا چاہتا تھا۔

وہ اپنے بچپن کے دوست سے نفرت کرنا چاہتا تھا، ان سب سرد مہریوں اور بے التفاتیوں کا جو اس نے اپنی زندگی میں برداشت کی تھیں، بدلہ لینا چاہتا تھا؛ اور ہر بار جب اس کے ذہن میں الفونس کا دفاع کرنے کا ایک ہلکا سا خیال بھی سر اٹھاتا تو وہ اسے فوراً جھٹک دیتا ۔ اور اپنے سابقہ سر براہ کا کہا جملہ دہراتا: ’’ایک کاروباری شخص کو جذباتیت زیب نہیں دیتی  ۔‘‘

ایک روز وہ اپنے درزی کے ہاں گیا؛ ان دنوں وہ ضرورت سے زیادہ کپڑے استعمال کر رہا تھا۔ چھوٹے قد کا خوش مزاج درزی ہاتھ میں کپڑے کا تھان اٹھائے بڑی پھرتی سے اس کی جانب لپکا: ’’یہ دیکھئے،   آپ کے لباس کے لئے یہ بہترین کپڑا ہے۔ جناب الفونس نے بھی اسی کپڑے کا ایک لباس سلوایا ہے  –  اور جناب الفونس ایک ایسی شخصیت ہیں جو لباس کے انتخاب کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔  ‘‘

’’میرا یہ خیال نہیں تھا،‘‘ شارلے نے قدرے حیرانی سے کہا۔ ’’کہ جناب الفونس تمہارے پسندیدہ گاہکوں میں شمار ہوتے ہیں۔  ‘‘

’’اوہ، میرے خدایا!‘‘   پستہ قد درزی پکار اٹھا، ’’آپ نے اس لئے تو یہ رائے قائم نہیں کی کہ میں نے ایک آدھ بار آپ سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جناب الفونس کے ذمہ میرے چند ہزار فرانک واجب الادا ہیں؟ ایسی باتیں کرنا میری حماقت تھی۔ جناب الفونس نے نہ صرف  یہ کہ میرا معمولی قرض چکا دیا ہے بلکہ میں جانتا ہو ں کہ انہوں نے بہت سے دوسرے قرض  دہندگان    ،جن سے میری واقفیت ہے ، کو بھی مطمئن کر دیا ہے۔  میں نے اس ہر دل عزیز اور وجیہہ شخص کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے اور میری آپ سے پر زور استدعا ہے کہ میری اس حماقت کا ان سے کبھی ذکر نہیں کیجئے گا۔ ‘‘

شارلے اب اس باتونی درزی کی بک بک پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔ و ہ جلدی سے دکان سے باہر نکلا اور سڑک پر آگے   کی جانب چل دیا۔  وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ الفونس نےاپنے قرض کیسے چکا دئیے تھے۔

اس نے سوچا کہ در حقیقت یہ اس کی بہت بڑی حماقت تھی کہ وہ کسی دوسرے کی بربادی کا منتظر تھا۔  جب کہ اس کے کانوں  میں بھنک پڑے بغیر بڑی   آسانی        سے خوش قسمت الفونس کا کاروبار چمک سکتا تھا اور وہ بہت سا روپیہ کما سکتا تھا۔  شاید آخرِ کار اس کے سب کام سنور جائیں اور شاید انجامِ کار لوگ یہ کہنے لگیں:  ’’دیکھیں، جناب الفونس نے اپنے    بدذوق اور بد مزاج دوست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ کس کام کے لئے موزوں ہیں  !‘‘

وہ سر جھکائے، آہستہ آہستہ سڑک پر چلا جا رہا تھا؛اسے کئی دھکے لگے مگر اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔  وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی زندگی کس قدر بے معنی ہے؛ یوں جیسے اس کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب کھو گیا ہو  –     یا اس نے خود ہی وہ سب ضائع کر دیا ہو۔  اچانک   وہ کسی شخص سے بڑے زور سے ٹکرایا، اس نے نگاہ اوپر اٹھائی؛  یہ اس کا ان دنوں کا ایک پرانا شناسا تھا، جب وہ اور الفونس کریدٹ لیونیس میں ملازمت کرتے تھے۔

’’اوہ،  دن بخیر، جناب شارلے!‘‘ اس نے بآوازِ بلند کہا، ’’ہمیں ایک دوسرے سے ملاقات کئے کافی عرصہ بیت چکا  ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ میں آج صبح ہی آپ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور آج ہی آپ سے ملاقات ہو گئی ۔‘‘

’’کیوں، کیا میں پوچھ سکتا ہوں ؟‘‘شارلے نے قدرے تشویش سے پوچھا۔

’’اس لئے کہ میں نے آج ہی بنک   میں بارہ لاکھ فرانک کا ایک پرامیسری نوٹ دیکھا،جس پر آپ کے اور جناب الفونس کے دستخط تھے۔  مجھے حیرت  ہوئی ،میں تو سمجھا تھاکہ آپ دونوں اپنا کاروبار تقسیم کر چکے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں، ابھی ہم نے سب کچھ تقسیم نہیں کیا۔‘‘ شارلے نے رک رک کر کہا۔ اس نے اپنا چہرہ پرسکون رکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے ہر ممکن حد تک فطری لہجے میں دریافت کیا:’’ اس وعدہ نامہ کے مطابق رقم کب واجب الادا ہے، میں تو بالکل بھول ہی گیا ہوں؟  ‘‘

’’میرا خیال ہے کہ کل یا  پرسوں،‘‘ اس شخص نے جواب دیا، جو ایک محنتی کاروبار ی شخص تھا اور رخصت ہونے کی جلدی میں تھا۔ ’’اور یہ  رقم جناب الفونس نے وصول کرنی ہے۔  ‘‘

’’جی ہاں میں جانتا ہوں،‘‘  شارلے نے کہا اور پھر نہایت مہذب انداز سے پوچھا: ’’لیکن کیا آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ اسے تیار کروا کر کل ہی مجھے دے دیں ۔ آپ کی  عنایٔت ہو گی  –    میں آپ کا یہ احسان یاد   رکھوں  گا۔ ‘‘

’’مجھے خوشی ہو گی،  آپ کا قاصد کل سہ پہر کو  بنک آ کر مجھے ذاتی طور پر مل لے۔گو کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے، مگر میں بندوبست کر دوں گا۔ معاف کیجئے گا  میں ذرا جلدی میں ہوں۔ الوداع!‘‘  اپنی بات مکمل کرکے وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

اگلے روز شارلے اپنے دفتر میں اس شخص کی واپسی کا منتظر بیٹھا تھا، جو الفونس کا   پرامیسری  نوٹ لینے بنک گیا تھا۔ آخر کا ر وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور نیلے رنگ کا ایک تہہ شدہ پرچہ شارلے  کے سامنے رکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

جب کمرے کا دروازہ بند ہو گیا تو شارلے نے جلدی سے دستاویز ہاتھ میں پکڑ کر اس کی تہہ کھولی اور کمرے کا جائزہ  لیا۔ چند    ثانیے تک  وہ اپنے نام کو گھورتا رہا ،پھر اس نے کرسی پر پیچھے کو جھک کر ٹیک لگاتے ہوئے ایک گہری سانس چھوڑی۔ اس کی سوچ کے مطابق، اس کے دستخط جعلی تھے۔

وہ دوبارہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور دیر تک اپنے نام کو دیکھتا رہا، اس نے غور کیا کہ اس کے نام کی کتنی بھونڈی نقل کی گئی تھی۔  جس وقت اس کی تیز نگاہیں ہر  سطر  میں اپنے نام کو تلاش کر رہی تھیں  تو وہ بالکل خالی الذہن تھا ۔اس کا دماغ اس قدر مضطرب اور اس کے جذبات حیران کن حد تک اتنے متضاد تھے کہ اسے یہ سمجھنے میں کا فی دیر لگی کہ نیلے کاغذ پر لکھی یہ تحریر کیا آ شکار کر رہی تھی۔

اسے اپنے گلے میں ایک عجیب سی گرہ محسوس ہوئی، ناک میں ہلکی سی گد گدی ہوئی اور اس سے پہلے کہ ایک لفظ بھی اس کے پلّے پڑتا ایک موٹا سا  آنسو کاغذ پر گر گیا۔

اس نے بڑی عجلت میں ارد گرد نگاہ دوڑائی، جیب سے رومال نکالا اور احتیاط سے اس گیلے دھبے کو دستاویز سے پونچھ دیا۔ اور اسے ایک مرتبہ پھر ریوبر گئرکےاس سابقہ بنک آفیسر کا خیال آ گیا۔

واقعی اسے اس بات سے کیا فرق پڑتا تھا کہ الفونس کے کردار کی کمزوری نے بالآخر اسے ایک مجرم بنا دیا تھا؛ خود اس نے کیا کھویا تھا؟ کچھ بھی نہیں ،وہ تو اپنے بچپن کے دوست سے نفرت کرتا تھا ۔کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ الفونس کے برباد ہونے میں اس کا کوئی قصور تھا؛ اس نے تو نہایت دیانت داری سے شراکت تقسیم کی تھی اور اس کو کبھی کوئی گزند بھی نہیں پہنچائی تھی۔

پھر اس کا دھیان الفونس کی طرف چلا گیا۔ وہ اسے اتنی اچھی طرح تو جانتا ہی تھا کہ اس کے بارے میں اندازہ لگا سکتا کہ جب نفیس اور ایماندار الفونس اتنی گہرائی میں گر چکا تھا، تواب وہ زندگی کے اس دہانے پرتھا کہ رسوائی کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا وہاں سے واپس لوٹنا ممکن نہیں ہو گا۔

اس خیال کے آتے  ہی شارلے یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ الفونس کو اتنی مہلت نہیں ملنی چاہیے  کہ وہ ایک گولی اپنے سر کے آرپار  کرکے اپنی شرمندگی کو خود کشی کرنے والوں کے لئے پیدا ہونے والی پراسرار ہیبت اور ہمدردی کے ملے جلے جذبات میں چھپا لے۔   پھر تو وہ اس سے  بدلہ نہیں لے سکے گا، پھر تو بازی یوں پلٹ جائے گی کہ اس نے جو نفرت پالی تھی وہ  خود اس کے لئے  سوہانِ روح بن جائے گی۔  اب اگر وہ اپنے دوست کو ہمیشہ کے لئے کھو چکا تھا تو کم از کم    اپنے دشمن کو تو بے نقاب کر دے تاکہ سب دیکھ لیں کہ مسحور کن شخصیت کا مالک الفونس دراصل کس قدر حقیر اور قابلِ نفرت تھا۔

اس نے گھڑی پر نگاہ دوڑائی،  ساڑھے چار بج رہے تھے۔  شارلے جانتا تھا کہ وہ اس وقت الفونس سے کس چائے خانہ میں ملاقات کر سکتا تھا۔اس نے  وعدہ نامہ اٹھا کر جیب میں ڈالا اور کوٹ کے بٹن بند کر لئے۔

لیکن راستے میں وہ ایک تھانہ سے ہو کر جانا چاہتا تھا، تاکہ وعدہ نامہ ایک سادہ لباس میں ملبوس پولیس افسر کے حوالے کر دے ،جواس کا اشارہ   پانے پر اچانک چائے خانہ کے وسط میں پہنچ جائے، جہاں الفونس ہمیشہ اپنے دوستوں اور مداحوں میں گھرا بیٹھا ہوتا ہے، اور باآوازِ بلند، واضح الفا ظ میں یوں بات کہے کہ سب لوگ سن لیں۔

’’جناب الفونس! آپ پر جعل سازی کا الزام ہے!‘‘

پیرس میں برسات کا موسم شروع ہو چکا تھا۔  آج سارا دن سخت سردی اور دھند چھائی رہی ؛مگر دوپہر سے بارش برسنا شروع ہو چکی تھی۔ یہ موسلا دھار بارش نہیں تھی؛  آسمان  سے پانی باقاعدہ قطروں کی صورت میں نہیں گر رہا تھا؛ لیکن بادل پیرس کی گلیوں میں نیچے تک پھیل کر آہستہ آہستہ      پانی میں تبدیل ہو گئے تھے۔  آدمی خود کو جتنا بھی بچانے کی کوشش کرتا ،وہ سر سے پاؤں تک بھیگ ہی جاتا تھا۔نمی اس کی گردن کے پچھلے حصّے سے اندر گھس جاتی، اس کے گھٹنوں میں گیلے رومال کی مانند پھیل جاتی اور جوتوں کے اندر گھس کر پتلون سے اندر داخل ہو جاتی تھی۔

چند ایک پر کشش خواتین اپنی اسکرٹ اونچی کئے ، کوٹھیوں کی دہلیز پر بارش رکنے کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ کچھ   لوگ اومنی بس اسٹیشنوں پر گھنٹوں سے منتظر کھڑے تھے۔ مگر زیادہ تر لوگ اپنی  چھتریاں اٹھائے تیز تیز چلے جا رہے تھے؛ صرف چند ایک ہی اتنے سمجھدار تھے کہ انہوں نے ہار مان لی تھی، انہوں نے اپنے  کالر اوپر اٹھا لئے تھے، چھتریاں بند کر دی تھیں اور ہاتھ جیبوں میں ڈال لئے تھے۔

اگرچہ ابھی موسمِ خزاں کا آغاز    ہی تھا،مگر آج پانچ بجے سے ہی ملگجا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ ان تنگ گلیوں میں گیس  سے جلنے والی چند ایک بتیاں روشن ہو چکی تھیں ، ایک آدھ دکان کی بتی اس بھاری اور  مرطوب ہوا میں روشنی بکھیرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

رہ گزر پر  حسبِ معمول   راہ گیروں کی بھیڑ تھی،  جو ایک دوسرے سے دھکم  پیل کرتے، ایک دوسرے کی چھتریاں توڑتے چلے  جا   رہے تھے۔ تمام ٹیکسیاں مسافر وں      سے لدی ہوئی تھیں اور راہ گیروں پر ممکنہ حد تک چھینٹے اڑاتی جا رہی تھیں ۔ جب کہ اسفالٹ کیچڑ کی موٹی تہہ کے باوجود مدہم     روشنی میں چمک رہی تھی۔

چائے خانہ کچھا  کھچ بھرا تھا؛  باقاعدہ آنے والے گاہک ارد گرد گھوم کر لوگوں کو ڈانٹ رہے تھے اور بیرے جلدی   میں ایک دوسرے کی جانب بھاگ رہے تھے۔اس تمام افراتفری میں بھی بوفے کے اوپر لٹکی گھڑی کی تیز آواز سنی جا سکتی تھی۔ کیشیر خاتون نے ایک بیرے کو اپنے پاس طلب کیا، جب کہ اس کی پرسکون نگاہیں پورے چائے خانہ پر اپنی نظر رکھے ہوئے تھیں۔

وہ خاتون   بلیوارڈ    سیباستوپول  پر واقع ایک بڑے ریستوران کے بوفے  کے قریب بیٹھی تھی۔ اور اپنی مہارت اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ اس کے بال سیاہ اور چمکدار تھے اور اس نے خلافِ فیشن قدرتی گھنگریالے بالوں کی سیدھی مانگ نکال رکھی تھی۔ اس کی آنکھیں قدرے سیاہ رنگ اور ہونٹ بھرے بھرے تھے۔  اوپر    والے ہونٹ کے اوپر ی حصّے پر مونچھوں کا ہلکا سا سایہ تھا۔

اپنی زندگی کے تیس برس گزارنے  لینے کے باوجود اس کا سراپا اب بھی دلکش تھا۔وہ اپنی کیش بک میں اپنے چھوٹے سے نرم و  ملائم ہاتھ کے ساتھ اعداد کا اندراج کر رہی تھی ، کبھی کبھار وہ کوئی چھوٹا سا نوٹ بھی درج کر لیتی تھی۔

ما دام    ورجینی بیروں سے حساب کتاب لینے اوراس بڑے کمرے کے ہر گوشہ پر نظر رکھنے کے دوران ان فیشن ایبل    نوجوانوں سے بات چیت بھی کر لیتی جو ہمیشہ   بوفے کے گرد منڈلاتے    رہتے اور اس سے ہنسی مذاق کرتے رہتے تھے۔

دراصل وہ صرف سہ پہر پانچ بجے سے سات بجے تک ہی خود کو سجائے سنوارے رکھا کرتی تھی۔ یہ وہ اوقات تھے جن میں الفونس باقاعدگی سے قہوہ خانہ میں آیا کرتا تھا۔  ان لمحات میں اس کی نگاہیں کسی وقت بھی الفونس کے چہرے سے نہیں ہٹتی تھیں، اس کی رنگت کھل اٹھتی ، اس کے لب مسکراہٹیں بکھیرنے کو تیا ر رہتے اور اس کی حرکات و سکنات میں قدرے گھبراہٹ پیدا   ہو  جایا کرتی تھی۔ دن کے یہی وہ لمحات ہوا کرتے جب اکثر  ایسا ہوتا کہ وہ کسی سوال کا الٹا سیدھا جواب دے   دیتی یا اس سے حساب کتاب کرنے میں کوئی غلطی  سرزد   ہو جایا کرتی اور بیرے دبی ہنسی ہنستے ہوئے ایک دوسرے کو ٹہوکا لگا دیتے ۔

عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ پہلے اس کا الفونس کے ساتھ تعلق رہا تھا، بعض کا خیال تھا کہ وہ اب بھی اس کی معشوقہ تھی۔  مگر صرف وہ ہی جانتی تھی کہ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔  وہ جناب الفونس سے خفا نہیں ہو سکتی   تھی، گو کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دوسری بیسیوں عورتوں کی طرح اب اس کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رہی تھی،  وہ اب اس کا نہیں رہا تھا، بلکہ دراصل وہ کبھی بھی اس کا نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کی نگاہیں الفونس کی ایک محبت بھری نگاہ کی ملتجی رہا کرتی تھیں۔ جب وہ اسے محرمانہ  انداز سے سلام کئے بغیرقہوہ خانہ سے چلا جاتا  تو وہ اچانک کملا سی جاتی اور بیرے ایک دوسرے سے کہتے: ’’دیکھو ،آج مادام کس قدر اداس ہے۔‘‘

ابھی تک قہوہ خانہ کی کھڑکیوں کے قریب اتنی روشنی باقی تھی کہ انسان اخبار پڑھ سکے۔  ایک دو نوجوان کھڑکیوں کے قریب سے گزرتے ہجوم کو دیکھ کر دل لگی کر رہے تھے۔   جب کوئی شیشے کے ان بڑے   بڑے    چوکھٹوں میں سے، اس نم    آلود  ہوا  میں ایک دوسرے کے پاس سے تیزی سے گزرتے لوگوں کو دیکھتا تو   اسے  وہ ہجوم ایک ماہی خانہ میں تیرتی مچھلیوں کی مانند دکھائی دیتا  تھا۔ قہوہ خانہ کے عقبی حصّہ میں بلیرڈز  کی میز کے اوپر    لیمپ    روشن ہو چکا تھا۔ الفونس اس طرف گیا اور اپنے چند دوستوں کے ساتھ بلیرڈز کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔

اس نے بوفے کے قریب جا کر مادام    ورجینی کو سلام کیا اور وہ جو بہت دنوں  سے یہ محسوس کر رہی تھی کہ الفونس کی رنگت دن بدن زرد    پڑتی  جا رہی تھی اور اس کی ہنسی مذاق کرنے کی عادت بھی اب گھٹ کر آدھی رہ گئی ہے، اس نے اسے زندگی سے لاپرواہ   ہونے پر ہلکی سی   سرزنش  کی۔

الفونس نے اس کے جواب میں ایک ہلکا سا مذاق کیا اور اس سے فرانسیسی شراب طلب کی۔

ما دام ورجینی ان رقص اور نغمہ سرائی کرنے والی بے حیا خواتین سے سخت نفرت کرتی تھی، جوہر رات بلیرڈز اور کھانے کی میز پر جناب الفونس کے گرد گھیرا ڈالے، اسے لبھاتی رہتی تھیں۔   پچھلے چند ہفتوں سے وہ کافی بیمار دکھائی دینے لگا تھا ؛ وہ بہت دبلا ہو گیا تھا  اور اس کی موٹی موٹی   نرم آنکھوں میں ایک چبھنے والی بے چینی جھلکتی رہتی تھی۔ وہ اسے ان حالات سے نکالنے کے لئے، جنہوں نے اس کی زندگی تباہ کر دی تھی، کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اس نے اپنے سامنے آویزاں آئینہ میں خود کو دیکھا اور سوچا کہ وہ اب بھی کافی حسین ہے۔

قہوہ خانہ کا دروازہ وقفہ وقفہ سے کھلتا، ایک نیا مہمان اندر داخل ہو تا،  اپنے جوتے جھاڑتا اور اپنی گیلی چھتری تہہ کرکے رکھ دیتا۔ وہ سب مادام ورجینی کو جھک کر سلام کرتے اور سب ہی تبصرہ کرتے: ’’آج موسم کتنا خراب    ہے!‘‘

جب شارلے اندر داخل ہوا تو اس نے بھی ما دام ورجینی کو  مختصر سا  سلا م کیا اور آتش   دان کے قریب جا بیٹھا۔

آج الفونس کی نگاہیں واقعی بہت بے چین تھیں؛ جب بھی کوئی فرد اندر داخل ہوتا تو وہ مڑ کر دروازے کی جانب دیکھتا،   جب شارلے اندر آیا تو اس کے چہرے پر ایک   تناؤ   سا پھیل گیا اور اس کا نشانہ چوک گیا۔

‘‘     جناب الفونس آج بہت مضطرب ہیں،    ’’ایک تماشائی نے کہا۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک اجنبی شخص قہوہ خانہ میں داخل ہوا۔ شارلے نے اخبار سے نظریں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور سر کو ہلکی سی جنبش دی؛ اجنبی نے اپنی بھویں تانیں اور الفونس کی جانب دیکھا۔  الفونس کے ہاتھ سے بلیرڈز کی چھڑی فرش پر گر گئی۔

’’معاف کیجئے، صاحبان!  آج میں بلیرڈز کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہوں،‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے کھیل سے رخصت کی اجازت دیجئے۔     –  خدمت گار میرے لئے سوڈا واٹر کی ایک بوتل اور ایک چمچ لے آؤ، مجھے معدنی نمک کی ایک خوراک لے لینی  چاہیے۔  ‘‘

’’  آپ کو اتنا زیادہ معدنی نمک نہیں کھانا چاہیے، جناب الفونس! اس کی بجائے آپ کو  متوازن  غذا پر توجہ دینی چاہیے،‘‘   ڈاکٹر نے کہا جو ذرا فاصلہ پر بیٹھا شطرنج کھیل رہا تھا ۔

الفونس ہنس دیا اور اخبارات والی میز پر جا بیٹھا۔ اس نے ایک  مزاحیہ روزنامہ اٹھایا اور اس کے خاکوں پر خوش کن تبصرے کرنے لگا۔ اس کے ارد گرد جلد ہی لوگوں کا ایک مجمع لگ گیا۔ اس کا مزاحیہ    قصّےکہانیوں اور منفرد  لطیفوں کا خزانہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ دوسروں کے قہقہوں کی گونج میں گپیں ہانکنے کے دوران اس نے گلاس میں  سوڈا واٹر انڈیلا اور اس کے بعد اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکالی جس پر موٹے حروف میں لکھا تھا: معدنی نمک۔

اس نے نمک گلاس میں جھاڑا اور اسے چمچ سے ہلانے لگا۔ اس کی کرسی کے سامنے فرش پر سگار کی راکھ گری تھی، اس نے راکھ کو اپنے جیبی رومال سے جھاڑا اور پھر گلاس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

عین اسی لمحے اس نے اپنے بازو پر ایک ہاتھ کا    دباؤ محسوس کیا، شارلے اپنی جگہ سے اٹھ کر جلدی سے الفونس کے قریب آ کراس پر جھکا کھڑا تھا۔اس نے اپنا چہرہ گھما کر یوں اس کی جانب دیکھا کہ شارلے کے سوا کوئی اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔ پہلے تو اس نے دزدیدہ نگاہوں سے اپنے پرانے دوست کے سراپا کو دیکھا؛ پھر  اپنی آنکھیں پوری کھول کر اونچی آواز میں کہا ۔

’’شارلے!‘‘

شارلے کو اپنا یہ عرفی نام سنے ایک عرصہ بیت چکا تھا، اس نے اس جانے پہچانے چہرے کو غور سے دیکھا اور پہلی بار یہ محسوس کیا کہ ان پچھلے دنوں میں وہ کتنا بدل چکا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس چہرے پراپنے بارے میں کوئی درد ناک کہانی پڑھ رہا ہو۔

وہ چند ثانیے یوں ہی کھڑا رہا اور الفونس کے چہرے پر بے بسی اور عاجزی کے ایسے تاثرات پھیل گئے جنہیں شارلے اسکول کے دنوں سے بخوبی  پہچانتا تھا، جب الفونس آخر ی لمحات میں بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا کرتا اور چاہتا کہ وہ اس کے لئے  ایک مضمون لکھ دے۔

’’کیا آپ یہ روزنامہ پڑھ چکے ہیں؟‘‘ شارلے نے اکھڑے ہو ئے لہجہ میں پوچھا۔

’’جی ہاں، آپ لے     لیجئے!‘‘ اس نے اخبار اس کی جانب بڑھایا اور اسی لمحے اس کا انگوٹھا تھام لیا۔  پھر انگوٹھا دباتے ہوئے   سرگوشی   کے انداز میں کہا: ’’شکریہ!‘ ‘اور اس کے ساتھ ہی اپنا گلاس خالی کر دیا۔

شارلے دروازے کے قریب بیٹھے اجنبی شخص کے پاس گیا اور کہا: ’’ دستاویز مجھے دے دیں   ۔‘‘

‘‘   ’’تو گویا آپ کو میری مدد نہیں چاہیے؟

‘‘          ’’نہیں، شکریہ۔

’’اچھی بات ہے،‘‘ اجنبی شخص نے نیلے رنگ کا پرچہ شارلے کے حوالے کرتے ہوئے کہا؛  پھر اس نے کافی کا بل ادا کیا اور باہر نکل گیا۔

مادام ورجینی ایک ہلکی سی چیخ    مارکر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی: ’’الفونس! –  اوہ، میرے خدایا! جناب الفونس بیمار ہیں۔ ‘‘

وہ کرسی سے نیچے پھسل گیا ، اس کے کندھے اوپر کو اٹھ گئے، سر ایک طرف کو جھک گیا اور وہ کرسی سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گیا۔ ارد گرد بیٹھے لوگوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی؛ ڈاکٹر بھاگ کر آگے بڑھا اور اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔  جب اس نے الفونس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اسے قدرے تشویش ہوئی، اس نے نبض دیکھنے کے لئے اس کا بازو پکڑا اور اسی لمحے جھک کر  میز کے کونے پر پڑے گلاس کو دیکھا۔ اس نے گلاس کو اپنے ہاتھ سے معمولی سا  ٹہوکا  دیا اور وہ فرش پر گر کرکرچی  کرچی ہو گیا۔ اب اس نے مردہ  الفونس کا ہاتھ چھوڑا اوراس کی ٹھوڑی پر ایک رومال باندھ دیا۔

ارد گرد بیٹھے لوگوں کو اب سمجھ آئی کہ کیا ہو گیا ہے:  ’’انتقال پا گئے ہیں؟  –  ڈاکٹر ، کیا وہ فوت ہو گئے ہیں؟  – کیا جناب الفونس انتقال پا گئے ہیں  ۔‘‘

’’انہیں دل کا دورہ  پڑا ہے،‘ ‘ڈاکٹر نے جواب دیا۔

ایک شخص پانی کا گلاس لئے بھاگتا ہوا آیا، دوسرا سرکہ لے آیا ؛کمرے کے عقبی حصّے سے باتوں اور قہقہوں کے درمیان بلیرڈز کی میز پر گیندوں کو ضرب لگانے کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں۔

’’  شش! ‘‘ایک سرگوشی  ابھری؛ ’’شش! ‘‘ایک بار پھر دہرایا گیا اور پھر خاموشی نعش کے گردا گرد پھیلتے ہوئے آگے اور آگے بڑھتی گئی،  یہاں تک کہ کمرے میں مکمل سکوت چھا گیا۔

’’آئیے، انہیں اٹھائیں!‘‘ ڈاکٹر نےکہا۔

مرنے والے کو فرش سے اٹھایا گیا  اور کمرے کے ایک کونے میں پڑے ایک صوفہ پر لٹا دیا گیا۔ صوفہ کے نزدیک کی روشنیاں گل کر دی گئیں۔

مادام ورجینی ابھی تک اپنی جگہ پر جامد  کھڑی تھی؛  اس کا چہرہ  چاک کی مانند سفید پڑ گیا تھا اور وہ اپنے نرم ہاتھ سے اپنا سینہ دبائے ہوئے تھی۔ جب وہ الفونس کواٹھا ئے ہوئے بوفے کے پاس سے گزر رہے تھے، تو ڈاکٹر کا ہاتھ مرنے والے کی کمر کے نیچے تھا ،اس کی واسکٹ پیچھے کھسک گئی تھی اوراس کی اعلیٰ قسم کی سفید قمیض کا تھوڑا سا حصّہ دکھائی دے رہا تھا۔ مادام ورجینی کی نگاہیں اس شخص کے دبلے پتلے سراپا کا تعاقب کر تی رہیں ،جسے وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی اور تاریک کونے تک اسے مسلسل گھورتی رہیں۔

زیادہ تر مہمان چپ چاپ وہاں سے چلے گئے۔  دو نوجوان شور مچاتے اندر داخل ہوئے، ایک بیرہ تیزی سے ان کی طرف لپکا اور ان سے کچھ کہا۔، انہوں نے اپنی جیکٹوں کے بٹن بند کئے اور دوبارہ دھند چھائی سڑک پر نکل گئے۔

قدرے اندھیرے میں ڈوبا قہوہ خانہ جلد ہی خالی ہو گیا؛ الفونس کے چند قریبی دوست ایک کونے میں جمگھٹا کئے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ ڈاکٹر قہوہ خانہ کے مالک سے باتیں کر رہا تھا، جو جائے وقوعہ پر پہنچ چکا تھا۔ بیرے اندھیرے کونے سے بچتے بچاتے دبے پاؤں آگے پیچھے آ جا رہے تھے۔ان میں سے ایک فرش پر گھٹنے ٹیکے گلاس کی کرچیاں چن کر ایک سینی میں رکھ رہا تھا،وہ ہر ممکن حد تک شور  کئے بغیر اپنا کام کر رہا تھا،مگر اس کے باوجود شور ہو رہا تھا۔

’’انہیں ابھی ایسے ہی پڑے رہنے دو،‘‘     قہوہ خانہ کے مالک نے آہستہ سے کہا۔

آتش دان سے ٹیک لگا ئے کھڑے شارلے نے اپنے مردہ دوست کی طرف دیکھا اوراس کے بارے میں سوچتے ہوئے دھیرے دھیرے تہہ شدہ نیلے کاغذ کے پرزے پرزے کر دئیے۔

 

(نارویجین سے براہ راست اردو ترجمہ)

 

Written by:

Alexander L. Kielland

 

 

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے