fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

افسانہ: سدا جوان (Forever Young)، تحریر: ڈاکٹر نسیم صلاح الدین

اردو ترجمہ: رومانیہ نور (ملتان)

افسانہ: سدا جوان (Forever Young)، تحریر: ڈاکٹر نسیم صلاح الدین

ہر صبح مریض کو دیکھنے کے لیے چکر لگانے پر میں اسے ہمیشہ خالی نظروں سے چھت کو گھورتے چت لیٹے ہوا پاتی ۔  اس کے گھر والوں نے مجھے سختی سے منع  کیا تھا کہ میں اس کے سامنے یہ ظاہر نہ کروں کہ اس کے پھیپھڑوں کا سرطان بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے اور مہلک خلیے اب اس کے جگر اور ہڈیوں میں سرایت کر چکے ہیں۔  کیموتھراپی شروع کردی گئی تھی، لیکن اعدادوشمار کے مطابق زندہ رہنے کے امکانات کم تھے۔  اب اس کے کمزور مدافعتی نظام کے نتیجے میں خون میں سنگین نوعیت کی جراثیم زدگی ہو گئی تھی، جس کے لیے اس کے ماہر امراض سرطان نے مجھ سے مشورہ کیا تھا۔ کہیں دور خلا میں تکتی اس کی آنکھیں، اس کے یک لفظی جوابات اور اس کی سست حرکات ، سب اس بات کا مظہر تھے کہ اس نے اپنے  وجود کے خاتمے کو قبول کر لیا ہے ۔ اپنے خوف پر بات چیت کرنے کے موقع سے محروم، وہ تیزی سے پسپا اور افسردہ ہو گیا۔ اگرچہ وہ کافی تکلیف میں تھا، اس نے درد کُش دوا  لینے سے سختی سے انکار کر دیا۔  کوئی بھی اس کے خیالات کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکا کیونکہ کسی نے بھی اُس کو اُس کی تشخیص کے متعلق نہیں بتایا تھا۔

میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ مریض کے ساتھ اس کی حتمی شدید نوعیت کی بیماری کے بارے میں کھلی بحث ہی بہترین طریقہ ہے۔  یہ مریض کو اندرونی خوف کے بارے میں بات کرنے کی اجازت دیتا ہے اور انجام کی تیاری میں مدد کرتا ہے۔  تاہم اس مریض کے اہل خانہ نے اس طرح کے سیدھے سادھے انداز کی سختی سے مخالفت کی۔  اس کے بجائے، انہوں نے لا علمی میں رہنے کو ترجیح دی اور “سب ٹھیک ہے”  کی روایت پر عمل پیرا ہوئے۔  اگرچہ میں اس بات سے شدید نا متفق تھی ، لیکن ان کے غیر متزلزل رویے نے مجھے تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔

میرے مریض کی بیوی یا بیٹیاں ہمیشہ اس کے ساتھ رہتیں، مسلسل قرآن پڑھتیں اور اس پر دعائیں پھونکتی رہتی تھیں۔  غم زدہ رشتہ دار دن کے ہر وقت عیادت کرنے آتے، دھیمی آواز میں بولتے اور ہمیشہ سرسراتے لہجے میں کہتے، “سب ٹھیک ہو جائے گا، انشاء اللہ” وہ جانتے تھے اور مریض کو بھی معلوم تھا کہ آخر ناگزیر حقیقت کیا ہے، لیکن کسی نے بھی یہ خوف ناک الفاظ بولنے کی ہمت نہیں کی،”اب کچھ نہیں ہو سکتا”   ایسے ہی ایک ملاقاتی  مریض کے دروازے کے باہر مجھ سے مخاطب ہوا اور پوچھا: “کوئی تشویش ناک بات تو  نہیں ، یا کوئی مسئلہ ہے؟”  سب ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ۔  “اسے کن کھانوں سے پرہیز کرنا چاہیے؟”  دوسرے نے سادہ لوحی سے پوچھا۔  “وہ جو چاہے کھا سکتا ہے۔” وہ ویسے بھی زیادہ نہیں کھا رہا تھا، تو کسی بھی قسم کے کھانے پر پابندی کیوں لگائی جائے؟

ماہر معالج سرطان نے زہریلی ادویات کے ساتھ کینسر سے نجات دلانے کی پوری کوشش کی، لیکن ان کی وجہ سے اسے راحت سے زیادہ تکلیف ہوئی۔ وہ اپنا دن تنہائی میں گزارتا، نہ بولتا اور نہ ہی کھاتا۔ مریض ہفتے کے اندر ہی دورانِ نیند اللہ کو پیارا ہو گیا۔

فرینک اس کے مکمل برعکس تھا، جس سے میں اور میرے شوہر اپنے ایک سفر کے دوران ملے تھے۔  ہم اسپین کے جنوبی سفر سے طنجہ، مراکش کے لیے فیری میں بحیرہ روم کو عبور کر رہے تھے۔ یہ ایک خوبصورت، صاف دن تھا اور مسافر جبل الطارق کی مشہور چٹان کو دیکھنے کے لیے عرشے پر موجود تھے جو قریب ہی نظر آ رہی تھی۔  ان میں سب سے نمایاں نظر آنے والا ایک بزرگ آدمی تھا، جو ایک شوخ رنگ کی ہوائی قمیص اور برمودا شارٹس میں ملبوس تھا ،جوتے بغیر جرابوں کے پہنے ہوئے تھے، سر پر ایک سبز یانکی ڈوڈل کیپ تھی جس میں پَر اڑسا ہوا تھا، اور اس کی گردن میں ایک ڈیجیٹل کیمرہ لٹک رہا تھا۔  فرینک کی عمر اسّی کے لگ بھگ رہی ہوگی۔  بیئر کین ہاتھ میں لے کر ایک خوش کن انداز میں، وہ چٹکلے چھوڑتا ، یک سطری لطیفے سناتا ، سیاحوں کے ایک خوش گوار گروپ سے دوسرے میں  پھرتی سے متحرک تھا۔  وہ ہماری پارٹی میں بھی آیا۔  “ہیلو لوگو، میں کیلگری سے ہوں۔ اور آپ؟ اوہ، پاکستان! کیوں بھئی، آپ تو گھر سے بہت دور ہیں۔”

“آپ بہت سفر کرتے ہیں،” میں نے اس کے سفری بیگ پر کئی یورپی شہروں کی نمائندگی کرنے والے مختلف قسم کے اسٹیکرز کو دیکھتے ہوئے کہا۔  میں نے پوچھا کہ اس کا آگے کہاں جانے کا ارادہ ہے۔

“کچھ نہیں کہہ سکتا، وہ بولا ” میں کوشش کر رہا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ دنیا کو دیکھ سکوں۔  کون جانتا ہے ،  ہو سکتا ہے اگلی منزل  پاکستان ہو۔   آپ جانتے ہیں نا، ایک ایسے شخص کے لیے جو ادھار لیے ہوئے وقت پر جی رہا ہو ، یہ بہت مشکل ہے۔

“ادھار وقت سے تمہارا کیا مطلب ہے؟”

“اچھا ، انہیں ابھی مجھ میں کینسر کا  پتا چلا ہے۔”  اس نے اپنی ہوائی قمیص کو اوپر کھینچا، جس میں ایک سفید پیٹ جھلک رہا تھا جس پر ایک بڑا، زگ زیگ  جراحی کا مندمل نشان تھا۔  “یہ ہر طرف پھیل گیا ہے۔”  اس نے اپنے زخم پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

“مجھے امید ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا”، میں ہمدردی سے بڑبڑائی۔

“ایک سرجری کے بعد میرے پھیپھڑوں میں خون کا لوتھڑا چلا گیا ، اس لیے اب میں اپنے خون کو پتلا رکھنے کے لیے گولیاں کھاتا ہوں۔”  اس نے اپنی جیب سے ایک گولیوں کا ڈبہ نکالا اور مجھے گولیوں کی ایک قسم دکھائی۔  “یہ میرے خون کو پتلا رکھنے کے لیے ہے، یہ درد کے لیے ہے، یہ میرے بلڈ پریشر کے لیے ہے، اور یہ میرے گردوں کے لیے ہے۔”

“کیا تم اکیلے سفر کر رہے ہو؟”

“ہاں۔ بیوی کا پچھلے سال انتقال ہو گیا۔ اسے ویسے بھی سفر کرنا پسند نہیں تھا۔ وہ 72 سال کی تھی۔ میں اگلے مہینے 78 سال کا ہو جاؤں گا۔”

“کوئی بچہ؟”

“میرا لڑکا ٹیکساس میں اپنی محبوبہ کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ ہر یومِ تشکر پر آتا ہے۔ مجھے گھر میں ایک پالتو روسی ساموئیڈ ( قطب شمالی کے کتوں کی ایک نسل) مل گئی۔ وہ اور میں بہت اچھے طریقے سے رہتے ہیں، اس لیے کم از کم میں تنہا نہیں ہوں”۔

“کیا تم اپنی بیماری سے نہیں ڈرتے؟”

مجھے بیماری لگ گئی ہے، مجھے اس کے ساتھ رہنا پڑے گا۔  اس پر پریشان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں.  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں جہاں بھی جاؤں یہ مجھے آن لے گی۔  آپ صرف ایک بار جیتے ہیں، سو میں دنیا کو جتنا  دیکھ سکتا ہوں دیکھ لوں۔  آہ ! کون جانتا ہے کہ میں کب اور کہاں گزر جاؤں گا؟” اس نے شرارت سے آنکھ ماری۔

اس مقام پر فیری جبل الطارق کی چٹان کے بالکل اس پار تھی۔  “کسی روز پاکستان میں ملتے ہیں۔ اگر میں زندہ رہوں گا تو،” اس نے مجھ پر ہوائی بوسہ اچھالا، اور “سدا جوان” کی دھن پر سیٹی بجاتا ہوا، چٹان کی تصویریں لینے کے لیے روانہ ہو گیا۔  وہ مجھے اس حیرت میں چھوڑ گیا کہ کیا اسے کبھی ان تصویروں کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔  میں نے اس کو جواباً انتہائی خلوص کے ساتھ کہا، “ٹھیک رہو، فرینک۔”

برسوں سے میں اپنے مرتے ہوئے مریض اور فرینک کے بارے میں غور و فکر کرتی رہی ہوں۔  دونوں کو میٹاسٹیٹک کینسر تھا جو ان کے پورے جسم میں پھیل چکا تھا، لیکن ایک اپنی موت سے پہلے کئی بار مرا، جب کہ دوسرے نے اپنی موت تک پوری زندگی جی لی۔  دونوں آدمیوں کا ایک ہی مرض سے مرنا مقدر تھا لیکن اس میں فرق یہ تھا کہ ہر ایک  اپنی بیماری سے کیسے نمٹا۔  میں نے انکار اور قبولیت کے انسانی ردعمل اور خاندان کی اجتماعی خواہشات پر مریض کے انفرادی حقوق پر غور کیا ہے۔

میں ابھی تک جواب تلاش کر رہی ہوں، اگر اس کا کوئی جواب ہے تو۔

Original Title: Forever Young

Among my own
Among my own

 :Written by

Dr. Naseem Salahuddin

Email: naseems101@gmail.com

Book: Among my own (The untold stories of my people)

First Published in May 2022

 

ترجمہ نگار کا تعارف:

 

رومانیہ نور کا تعلق ملتان سے ہے۔ ایک سرکاری سکول میں ادب کی استاد ہیں۔ آپ کے تراجم ممتاز ادبی جریدوں، جن میں “ادبیات”، “تسطیر” شامل ہیں،  میں شایع ہوچکے ہیں۔ عالمی ادب کے افسانوں کی مختلف منتخبیات میں آپ کے تراجم شایع ہوچکے ہیں۔ ان کتابوں میں “عورت کتھا”، اور “امریکی کہانیاں” نمایاں ہیں۔
آپ سے رابطہ اس ای میل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
romanianoor133@gmail.com

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے