fbpx
تبصرہ کتبتراجمترجمہ افسانہترجمہ کہانیاں

عقیلہ منصور جدون کی ترجمہ نگاری ۔۔۔۔ نئی دنیا کی بازگشت

منیر احمد فردوس (ڈیرہ اسماعیل خان)

عقیلہ منصور جدون کی ترجمہ نگاری ۔۔۔۔ نئی دنیا کی بازگشت
ڈاکٹر رشید امجد صاحب نے اپنے مقالے “ فن ترجمہ کے اصولی مباحث “ میں لکھتے ہیں کہ ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوۓ یہ بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ترجمہ نگاری دراصل کسی بھی تخلیق کی محض کاپی پیسٹنگ کا عمل نہیں ہے ،بلکہ یہ وہ ادبی پیمانہ ہے جس کی مدد سے ایک مترجم کسی تخلیق میں پوشیدہ نئے جہانوں کی بازگشت کو از سر نو دریافت کر کے اپنے قاری کے اندر اتارتا ہے ،تاکہ اس کے وجود میں لطف کے نئے ذائقے پھوٹ پڑیں ۔ جیسے جھٹپٹے کے وقت آسمان کے نیلگوں کنارے سرخی اوڑھ کر نئے منظر میں ڈھل جاتے ہیں ۔یا غروب آفتاب کے وقت دریا کا مٹیالہ پانی اپنے دامن میں سورج کا چمکتا ہوا سنہری عکس بچھا کر ماحول میں نیا رنگ بھر دیتا ہے ۔ اس لئیے میرے نزدیک ترجمہ نگاری اتنا ہی مشکل فن ہے جتنی تخلیق سازی ۔شاید اس لئیے نوبل انعام یافتہ پولش ادیبہ اولگا تکارچک نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا :
“ میں ترجمہ نگار کو اپنے برابر کا تخلیق کار سمجھتی ہوں ۔ایک تخلیق کار کا کام مترجم کے زریعے ہی دور دراز کا سفر کرتا ہے ۔اس کا کام بھی تخلیق کار جتنا ہی اہم ہے ،کیونکہ وہ اپنی زبان میں ایک ادب پارے کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے ۔ “
اس اعتبار سے محترمہ عقیلہ منصور جدون کے قلم سے عظیم روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کے ترجمہ شدہ افسانے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے ایک مترجم اپنے فن میں کمال کر دکھاتا ہے ۔ویسے تو وہ عالمی ادب پر گہری نگاہ رکھتی ہیں اور “ خدا کے نام خط “ کے عنوان سے منتخب عالمی افسانوں کے تراجم پر مشتمل کتاب شائع کر کے اپنا آپ منوا چکی ہیں ۔مگر زیر نظر کتاب میں ان کا فن ترجمہ نگاری عروج پر دکھائی دیتا ہے ،جس کا ہر افسانہ ایسی مہارت کے ساتھ اردو زبان میں ڈھالا گیا ہے کہ قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ترجمہ نہیں بلکہ متن سے الگ نوع کا ایک تخلیقی مزہ کشید کر رہا ہے ۔ ایسی فنی چابکدستی اس وقت ہی ممکن ہے جب ترجمہ نگار پوری دیانت داری کے ساتھ ترجمے کے فن کو برتتے ہوۓ تخلیق کے اصل متن میں اتر کر ایک ایک لفظ کو جئیے اور اس کا ترجمہ تخلیقی سطح پر جا کر کرے ۔
محترمہ عقیلہ منصور جدون نے کچھ ایسا ہی بڑا کام کیا ہے ۔انہوں نے جذباتی و نظریاتی سطح پر کروٹ لیتے ٹالسٹائی کی نفسیاتی پرتوں کی مختلف تصویریں قاری کے سامنے رکھ دی ہیں ،جب کہ پڑھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے خود ٹالسٹائی اس کے روبرو ہو کر اس کے ساتھ مکالمہ کر رہے ہوں ۔
کسی بھی عالمی تخلیق کو اپنی زبان کا لباس پہنانا ایک اہم معاملہ ہوتا ہے ،کیونکہ کوئی بھی زبان خالی خولی زبان نہیں ہوتی ،بلکہ اس کے پیچھے اس خطے کی پوری ثقافتی و سماجی روایات کے ساتھ ساتھ اس عہد کا پورا سچ بھی جڑا ہوتا ہے جس سے ایک مترجم کی مکمل آ شنائی بہت ضروری ہے ۔تبھی وہ تخلیق کی روح میں اتر کر ایک ادبی خزانہ اپنی زبان میں منتقل کر سکتا ہے ۔اس سلسلے میں پروفیسر مسکین علی حجازی کہتے ہیں کہ علمی ادبی اور فنی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا خاصا دشوار کام ہے ۔یہ کام وہی شخص صحیح طور پر کر سکتا ہے جو متعلقہ علم ،صنف ادب یا فن کا ماہر ہونے کے علاوہ دونوں زبانوں پر مکمل طور پر قادر ہو ۔
ویسے تو ایک مترجم پر بہت ساری تخلیقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مگر سب سے ضروری یہ ہے کہ ہ کسی بھی ادبی فن پارے کو اپنی زبان عطا کرتے وقت اس میں ترجمہ نگاری کے احساسات کو انگڑائیاں نہ لینے دے ،بلکہ اس کا ترجمہ اس عہد کی فکری و نفسیاتی سماجیات ،معاشرت ،ثقافت اور تہذیبی روایات کی ایسی بھر پور تخلیقی تجسیم محسوس ہو جہاں متحرک مناظر کے ساتھ جذبات و کیفیات ،کرداروں کا برتاؤ ، بول چال ،خاموشی ،موسم ،خوشی غمی بلکہ دھڑکتا ہوا پورا زندگی نامہ ایک نئے ڈھنگ سے تشکیل پاتا دکھائی دے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے بھی فن ترجمہ نگاری پر مہر ثبت کرتے ہوۓ “ارسطو سے ایلیٹ تک “ میں کچھ ایسی ہی بات کہی ہے کہ ترجمے کا کام یقینا” ایک مشکل کام ہے ۔اس میں مترجم مصنف کی شخصیت ،فکرواسلوب سے بندھا ہوتا ہے ۔ ایک طرف اس زبان کا کلچر جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر جس میں ترجمہ کیا جا رہا ہوتا ہے ۔یہ دوئی خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے ۔
اور یہ وصف محترمہ کے فن ترجمہ نگاری میں بدرجہ اُتم سانس لے رہا ہے ۔ انہوں نے ترجمہ کے لئے لیو ٹالسٹائی کے آخری عہد کے ایسے منفرد اور مشکل افسانوں کا انتخاب کیا ہے جن کی متنی دنیا میں اپنی اوائل عمری کے برعکس بدلے ہوۓ ایک نئے ٹالسٹائی دکھائی دیتے ہیں جو اپنی ہی ذات کے ساتھ کئی محاذوں پر لڑ رہے تھے ۔یقینا” یہ ترجمہ نگاری کا فنی حسن ہے کہ قاری کو صحیح معنوں میں ٹالسٹائی کے اندر کی شخصی توڑ پھوڑ دکھائی بھی دیتی ہے ۔ اور سنائی بھی ۔ اس ضمن میں سید عابد حسین عابد صاحب رقم تراز ہیں :
“ ترجمے کو ادبی قدروقیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ وہ آب و ہوا ،رنگ ،وہ چاشنی وہ خوشبو ،وہ مزا بھی آ جاۓ جو اصل عبارت میں موجود تھا ۔ “
ویسے تو محترمہ عقیلہ منصور جدون نے یہ افسانے انگریزی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ کیے ہیں مگر ان افسانوں کا اختصاص یہ ہے کہ لیو ٹالسٹائی کے انگریز دوست ایلمر معود اور اس کی بیوی لوئیس معود نے ٹالسٹائی کی زندگی میں ہی ان افسانوں کو انگریزی زبان عطا کی تھی ،جنہیں ٹالسٹائی نے پسندیدگی کی سند بخشی تھی ۔اس لحاظ سے اس ترجمہ کی قدرو منزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ کہ یہ تراجم تخلیق کار کی اصل تخلیقات کے من و عن ہی ہیں ، اس لئیے ٹالسٹائی نے نہ صرف ان ترجموں کی تعریف کی بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے میاں بیوی کی خاطر خواہ مدد بھی کی ۔چونکہ ایلمر معود کا ٹالسٹائی کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا اس لئیے مختصر افسانوں کے علاوہ اس نے وار اینڈ پیس کا بھی انگریزی ترجمہ کیا اور ٹالسٹائی کی سوانح عمری بھی لکھی ۔ اس لحاظ سے اس نے لیو ٹالسٹائی کی شخصیت کو بڑے قریب سے دیکھا اور وہ ان کی شخصیت کی کئی پرتوں سے واقف تھا ۔
عقیلہ منصور جدون صاحبہ نے سب سے منفرد کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے محض افسانوں کا ترجمہ کر کے اپنی جان نہیں چھڑائی بلکہ ابتدائی صفحات میں لیو ٹالسٹائی کے حالات زندگی اور ان کا فلسفہ حیات کو کتاب کا حصہ بنا کر جس عمدگی سے ٹالسٹائی کا مختصر سا شخصی خاکہ ترتیب دیا ہے وہ حقیقت میں ایک پل کا کام دیتا ہے کہ ان کے مخصوص حالات ، نظریات ،ان کی بدلتی ہوئی فکری جہتیں اور مذہبی فلسفے کو سمجھے بغیر موجودہ افسانوں کا نہ تو مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے تصورات کو سمجھا ھا سکتا ہے ،جن کے متن کے اندر ان کا پس منظر پوشیدہ ہے ۔اور قاری کو یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ یہ افسانے لکھتے وقت لیو ٹالسٹائی نظریاتی طور پر زندگی کے کس دور سے گزر رہے تھے ؟ ان کی مذہبی،نفسیاتی و ذہنی سطح کیا تھی ؟ وہ خدا ،اس کی خدائی اور کائنات کے اسرار کو سمجھنے کے لئیے کیا کیا فکری جتن کرتے رہتے تھے ؟
ایک طرح سے یہ افسانے عظیم روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کی شخصیت کا وہ کھویا ہوا ٹکڑا ہے جس سے ان کی شخصی تصویر مکمل ہو جاتی ہے اور اس کے لئیے عقیلہ منصور جدون قابل داد ٹھہرتی ہیں ۔بلا شبہ ان کا یہ کام اردو ترجمہ نگاری میں ایک گراں قدر اضافہ ہے جسے یقینا” پسند کیا جاۓ گا اور بطور مترجم عقیلہ منصور جدون صاحبہ اپنے ادبی سفر کو مذید تقویت دیتے ہوۓ اردو ادب کا دامن اسی طرح مالا مال کرتی رہیں گی ۔
*****
 کتاب : لیو ٹالسٹائی کی کہانیاں
انتخاب و ترجمہ : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
صفحات : 208، قیمت : 750 روپے
اشاعت اوّل : اپریل 2023ء
پبلیشر : سٹی بک پوائنٹ، اردو بازار، کراچی

افسانوں کی فہرست

 

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے